Chand Lamhe Sajjad Haidar Ke Saath چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ
2nd Year Urdu (اردو)
Chand Lamhe Sajjad Haidar Ke Saath چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ
حوالہ
پیشِ نظر اقتباس چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ سے لیا گیا ہے جو مولانا صلاح الدین احمد کی کتاب صریر خامہ سے ماخوذ ہے۔
تعارفِ مصنف
مولانا صلاح الدین احمد اردو ادب کے وہ اہلِ قلم ہیں جنہوں نے اپنی متاعِ
حیات اردو زبان کی خاطر تج کردی۔ تنقید نگاری کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ
آپ نے دیگر شعبوں میںبھی خامہ فرسائی کی اور اردو کو دنیا کی امتیازی
زبانوں میں لاکھڑا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ دنیا آپ کوخادمِ اردو کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کے بارے میں کہا گیا:
مولانا صلاح الدین کا اسلوب نگارش بہت دل آویز تھا۔ یوں سمجھئے کہ
مولانا محمد حسین آزاد کے اسلوب سے ملتا جلتا تھا۔ لیکن اس میں قدامت کی
جھلک نظر نہیں آتی۔ (ڈاکٹر عبدالسلام خورشید)
تعارفِ سبق
مصنف نے اس سبق میں مشہور افسانہ نگارسجاد حیدر یلدرم کی ادبی خصوصیات کا
ذکر کرتے ہوئے بیسویں صدی میں ادبی کشمکش کا جائزہ لیا ہے۔ سرسید تحریک
کا ادب برائے زندگی اور اہلِ لکھنو کا ادب برائے ادب اس سبق کا مضمون ہے۔
مصنف کے بقول سجاد حیدر ان شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اردو نثرنگاری کی
تخیلاتی روایات کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اقتباس ۱
اس میں کوئی کلام نہیں کہسرشار، شرر اور سجاد حسین نے اس بجھتی ہوئی شمع
کو اُکسانے کی کوشش کی۔ جس سے کبھی شام اودھ کے سہانے دھندلکے روشن تھے
لیکن تجدد کے اُبھرتے ہوئے آفتاب کے سامنے اس کی لو کچھ اس طرح سے شرما کر
رہ گئی کہ بھر ایک عرصہ دراز تک ہمارے ایوانِ ادب کے درودیوار پر اس کا
رقص نظر افروز نہ ہوا۔
تشریح
پیشِ نظر اقتباس میں مصنف اس عہد کا ذکر کررہا ہے جب اردو ادب و سخن پر
ایک کٹھن دور گزررہا تھا اور ادب برائے ادب ختم ہوتا نظر آرہا تھا اہلِ
لکھنﺅ اس کی بقاءکے لئے کوشاں تھے اور ایسے موقع پر اردو ادب کی خدمت کرنے
والے اور اس کی زندگی کے خواہاں تین افراد تھے جن کاذکر مصنف نے کیا ہے۔
ان افراد میں پنڈت رتن ناتھ سرشار، عبدالحلیم شرر اور منشی سجاد حسین شامل
ہیں۔ ان لوگوں نے آخری دم تک ادب برائے ادب تحریک جاری رکھی۔ ان کی خواہش
تھی کہ اردو شعرو نثر میں اب بھی فلسفیانہ خیالات پرورش پائیں اور اردو
کی روایات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یہ وہ دور تھا جب سرسید نے اپنی تحریک
شروع کردی تھے اور ادب برائے زندگی اپنے عروج کو تھا۔ ایسے پرزور اور
پرجوش تحریک میں سرسید کے ہم عصربھی ان کے ہم خیال تھے جس کی بدولت اردو
ادب میں ہر قسم کے لوگوں نے قلمکاری کی اور مقصدیت پر اپنا پورا زور صرف
کردیا۔ یہ تحریک اس قدر پر اثر تھی کہ اس کے سامنے سرشار، شرر اور
سجادحسین کی کاوشیں نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی اور مقصدیت اور
جوش کا دور اردو ادب پر چھا گیا۔ اس طرح اردو روایات کو جو نقصان پہنچا اس
کی تلافی آج تک ممکن نہ ہوئی اور دوبارہ وہی روایات جنم نہ لے سکیں
Why this is not complete!
ReplyDeleteIncomplete? how tell me
ReplyDelete