2nd year Urdu notes - XII class Notes Karachi Board of Intermediate Education نثر نگار کی خصوصیات
2nd Year Urdu (اردو)
2nd year Urdu notes - XII class Notes Karachi Board of Intermediate Education نثر نگار کی خصوصیات
مرزا فرحت اللہ بیگ
تمہید
مرزا فرحت اللہ بیگ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی جب پرانی تہذیب دم توڑرہی
تھی۔ سرسید کی تحریک اپنا اثر دکھارہی تھے۔ ایسے میں مرزا صاحب نے محسوس
کیا کہ پرانی تہذیب میں زندگی کی اعلی قدریں موجود ہیں۔ انہیں عہدِرفتہ کی
ان قدروں سے دلی لگاو تھا۔ اسی لئے وہ اپنی بھرپور کوششوں سے پرانی یادوں
کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔ فرحت اللہ بیگ کا اسلوبِ نگارش مرزا فرحت اللہ
بیگ نے اپنی نثرنگاری کی غرض و مقاصد خود بھی بیان کردیے ہیں:
مضامین لکھنے میں میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پرانے مضمون جو بزرگوں کی
زبانی ہم تک پہنچے ہیں تحریر کی صورت میں آجائیں تاکہ فراموش نہ کئے
جاسکیں اور خوش مزاقی کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرت کا پرچار کیا جائے۔ (مرزا فرحت اللہ بیگ)
مرزا فرحت اللہ بیگ ان خاص انشاءپردازوں میں سے ہیں جنہیں ان کے خاص
ظریفانہ اندازِ نگارش کی بدولت ایک خاص مقام و مرتبہ عطا ہوا۔ اسی لئے ایک
نقاد نے فرمایا:
ان کی زبان میں ایک مخصوص چٹخارہ، ایک مخصوص چاشنی ہے۔ ان کی بے ارادہ
ظرافت کی آمیزش بھی ایک نمایاں خوبی ہے جو اس طرز میں خودبخود پیدا ہوجاتی
ہے۔ (محمود نظامی)
طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات
مرزا فرحت اللہ بیگ طرزِ تحریر کی نمایان خصوصیات درج ذیل ہیں:
دہلی کی ٹکسالی زبان
دھلی سے دیرینہ تعلق کی بناءپر ان کی زبان میں ٹکسالی زبان کاچٹخارہ آگیا
ہے۔ تمام نقاد اس بات پرمتفق ہیں کہ مزاح نگاری میں فرحت کی کامیابی کی
ضامن ان کی دلکش زبان ہے۔
فرحت کی زبان نرم و نازک تھی جیسے ریشم، لطیف تھی جیسے شبنم، سبک تھی جیسے جیسے پھول کی کلی، شیریں تھی جیسے مصری کی ڈلی۔ (عبدالماجد دریاآبادی)
مختصر جملے، موزوں الفاظ، خوش آہنگ لب و لہجہ، محاورات کا برمحل استعمال،
نامانوس الفاظ سے گریز یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے فرحت کی تحریر کا تانا
بانا بنا ہے۔
محاورات کا برمحل استعمال
فرحت کا کوئی مضمون محاورہ بندی سے خالی نہیں۔ حد یہ ہے کہ اردو کے ساتھ
ساتھ فارسی کے محاورے بھی استعمال کرجاتے ہیں۔ لیکن سلیقے سے۔ نثر میں
محاورات کا استعمال عیب نہیں۔ یہ زبان کی دلکشی اور چاشنی کا باعث ہوتے
ہیں اور تحذیب کی علامت ہیں۔ البتہ رکیک اور سبک محاورے استعمال کیے جائیں
تو مضمون کا لطف ختم ہوجاتا ہے اور یہ خوبی کے بجائے عیب بن جاتا ہے۔
جزئیات نگاری
مرزا صاحب کی ایک اور خوبی جزئیات نگاری بھے ہے۔ وہ جس موضوع پر بھی قلم
اٹھاتے ہیں اس کی چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس
سے مضمون دلچسپ اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ اس کی عمدہ مثال دلی کا ایک یادگار مشاعرہ ہے جس میں انہوں نے مختلف اشخاص، ان کا لباس، ماحول، حلیہ، چال ڈھال غرض پوری تہذیب کا نقشہ کھینچا ہے۔
لطیف ظرافت
مرزا صاحب کی ظرافت بہت ہی لطیف قسم کی ہوتی ہے۔ قہقہے کا موقع کم ہی ملتا
ہے البتہ زیرِ لب تبسم کی کیفیت ضرور ملتی ہے۔ فرحت واقعہ، کردار اور
موازنے وغیرہ سے تبسم کی تحریک دیتے ہیں۔ الفاظ و جملوں کو ایسی شگفتگی و
دلکشی سے پیش کرتے ہیں کہ دل ودماغ ایک انبساطی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے اور
ہونٹوں پر تبسم خود ہی پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اعلی مزاح نگاری کا اصل کمال
اور وصف یہی ہے۔ ان کے ہاں طنز کا عنصر بہت کم ہے۔ وہ خوش مزاقی اور ہلکی و
لطیف ظرافت کے قائل تھے۔ ان کے مضامین میں سنجیدگی اور ظرافت کا فنکارانہ
امتزاج پایا جاتا ہے البتہ ان کے مضمون نئی اور پرانی تہذیب کی ٹکر میں طنز کا پیرایہ صاف نظر آتا ہے لیکن اس میں زہر ناکی نہیں ۔ ان کی ظرافت بے تضوع اور بناوٹ سے پاک ہوتی ہے۔
مقصدیت
مرزا صاحب نے اپنی مزاح نگاری کو مقصدیت کے تابع رکھا۔ وہ گزرے ہوئے
واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے نادر نمونے ہمیشہ کے
لئے محفوظ کرلینا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر اس میں احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو
ادبی مضامین محض تاثراتی مضامین ہوکر رہ جائیں گے لیکن ان کی ظرافت اور
شگفتہ بیانی ان میں بھی دلکش رنگ بھر دیتی ہے۔ وہ واقعات پہ گہری نظر ڈالتے
ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کی ثقالت ختم ہوجاتی ہے اور ایک زندگی
کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔ ڈپٹی نزیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ انکی زبانی
میں رقم طراز ہیں:
کہتے بھی جاتے تھے بھ�· کیا مزے کا خربوزہ ہے۔ میاں کیا مزے کا آم ہے
مگر بندئہ خدا کبھی یہ نہ کہا کہ بیٹا زرا چکھ کر دیکھو یہ کیسا ہے۔ میں
نے تو تہیہ کرلیا تھا کہ مولوی صاحب نے اگر جھوٹوں بھی کھانے کو پوچھا تو
میں سچ مچ شریک ہوجاوں گا۔
کہانی کا عنصر
مرزا صاحب کےااکثر مضامین کہانی کا رنگ لئے ہوئے ہیں۔ اندازِ بیان افسانوی
ہے جسکی وجہ سے قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔ انہیں داستان
سرائی کا بھی بہت شوق تھا۔ بعض مضامین تو ایسے ہیں جو ایک کہانی کے تقاضوں
کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں۔ ان کے کچھ ایسے مضامین درج ذیل ہیں:
- نذیر احمد کی کہانی
- ایک وصیت کی تکمیل میں
- دلی کا یادگار مشاعرہ
- پھول والوں کی سیر
دہلوی معاشرت کی عکاسی
فرحت کو عہدِ مغلیہ کے اخری دور کی معاشرت اور تمدن کا صحیح اور دلکش اور
بہترین عکاس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ مزاجاً مشرق پرست تھے اور اہلِ
مشرق کی ماضی پرستی سے بھی آگاہ تھے۔ انہوں نے دلی میں آنکھ کھولی اور
وہیں پرورش پائی۔ چنانچہ دلی والوں کے لباس، طورطریقوں اور تہواروں کے
سلسلے میں ان کا قلم خوب گلکاریاں کرتا ہے۔ انہوں نے ماضی کی عظمت کے قصے،
تقاریب کا احوال لکھا اور قارئین سے خوب داد وصول کی۔
خاکہ نگاری
فرحت اللہ بیگ کے یہاں خاکہ نگاری یا شخصیت نگاری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ ان کے تحریر کردہ خاکے نظیر احمد کی کہانی کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اسی طرح ایک وصیت کی تکمیل میں اور دلی کا یادگار مشاعرہ بھی مختلف شخصیات کا جامع تصور پیش کرتے ہیں۔
مرزا فرحت اللہ بیگ نہ مدلل مداحی کرتے ہیں اور نہ ہی ممدوح کے بجائے خود
کو نمایاں کرتے ہیں۔ وہ جس کا نقشہ کھینچتے ہیں اس کی خوبیوں، خامیوں،
عادات و اطوار، لباس، ناک نقشہ غرض ہر چیز چلتی پھرتی تصویر کی طرح آنکھوں
کے سامنے پھر جاتی ہے۔ مضامینِ فرحت کے مصنف لکھتے ہیں:
ہنسی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ ایک نفسی انبساط ہے۔ اگر دل و دماغ پر
ایک انبساط کی کیفیت چھا جائے اور کبھی کبھی لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ
کھل جائے۔ ایک آدھ بار قارئین پھول کی طرح کھل کر ہنس پڑیں تو ایسا مضمون
خوش مذاقی کا بہترین نمونہ ہوگا۔ (عظمت اللہ خان)
آراہ ناقدین
مختلف تنقید نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں لکھتے ہیں:
مرزا صاحب کے قلم سے سلاست اور فصاحت کا دامن بہت کم ہی چھوٹنے پاتا ہے۔ (عبدالقادر سروری)
مرزا فرحت اللہ بیگ کا بیان بہت سادہ و دل آویز ہے جس میں تصنع نام کو نہیں۔ (مولوی عبدالحق)
فرحت کی زبان شگفتہ فارسی آمیز ہے اور بعض اوقات تمسخر کچھ اس طرح ملا ہوتا ہے کہ جس میں پھول اور کانٹے نظر آئیں۔ (ڈاکٹر سید عبداللہ)
خوش مذاقی کی سڑک کے داغ بیل مجھ جیسے گمنام شخص کے ہاتھوں ڈلوائی گئی۔ (مرزا فرحت اللہ بیگ)
حرفِ آخر
مختصر یہ کہ فرحت اللہ بیگ کا تحریریں ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے نوادرات کو
محفوظ کرنے کی پرخلوص کاوشیں ہیں اور یہی ان کا نئی نسل پر احسان ِعظیم
ہے۔
__________________________________________________________________________________
سید سلیمان ندوی
ابتدائیہ
ذات سے اپنی زمانے میں جو تھا بحرِ علوم
اس کے خطبات کی عالم میں مچی ہے دھوم
سید سلیمان ندوی اس عہدِ عظیم کے عالم ہیں جس میں مسلمانوں نے ہر شعبے میں
ترقی کی۔ آپ کا تعلق دبستانِ شبلی سے ہے۔ آپ کا ادب و سخن علمِ دین کا
وقار بھی رکھتا ہے اور ادب کا حسن بھی اردو انشاء پردازی میں آپ کی بدولت
فکروفہم کے نئے گوشے روشن ہوئے اور بصیرتوں کو زندگی کا سراغ ملا۔ آپ
کہکششاںِ علم وفن کی ایسی آیتِ جمال ہیں جس کی تب و تاب ہمیشہ برقرار رہے
گی۔
سید سلیمان ندوی کا اسلوب نگارش
سید صاحب کا اندازِ نگارش بے مثل تھا۔ شبلی کی نظرِ التفات نے انہیں اور
کندن بنادیا تھا ۔ سید صاحب کے نزدیک زبان وخیال وفکر کے ابلاغ و ادراک کا
ذریعہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے کوشش کی کہ ان کی تحریر سادہ، رواں اور عام فہم
ہو۔ اپنے اسلوب کی تعریف میں خود آپ کے الفاظ ہیں:
جس اسلوبِ بلاغت، کمالِ انشاءپردازی، زورِ تحریر، فکروفلسفے کے ساتھ
انہوں نے انگریزی خواں نوجوانوں کے سامنے سیرت النبی اور قرآن کی آیتوں کو
پیش کیا اس نے ان کے لئے ایمان و یقین کے نئے نئے دروازے کھول دیئے۔ ان
کے دلوں میں معانی و مطالب کی بلندی اور وسعت کو پوری طرح نمایاں کردیا۔ (سید سلیمان ندوی)
طرزِ تحریر کی خصوصیات
سید سلیمان ندوی کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
مقصدیت
سلیمان ندوی ادب میں مقصدیت کے قائل تھے۔ انہیں احساس تھا کہ حالات کی
تبدیلی کے ساتھ ساتھ ادب کے مقاصد بھی بدلتے ہیں چنانچہ شاعری پر اظہارِ
خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اب زمانہ سلاطین کے درباری شعراءکا نہیں بلکہ قومی اور ملی شاعروں کا
ہے۔ جو بادشاہوں کے مدحیہ قصیدوں کی جگہ ملک و قوم کے جذبات کی ترجمانی
کریں۔ (سید سلیمان ندوی)
علمی متانت
ان کی تحریروں میں علمیت نے ایک خاص متانت و تمکنت پیدا کردی ہے۔ مولانا
کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کاعلم و دانش ہمیں ان کی تحریروں میں
بھی نظر آتا ہے۔
اسلام کے ظہور سے پہلے دنیا کے گھرانے سامی، تورانی، ایرین تین مستقل
خاندانوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اسلام کا بڑا کارنامہ ان سب کو ملانا اور
جوڑنا ہے۔ اس کا تمدن مصر، شام، عجم، روم اور یونان کے تمدنوں کا خلاصہ
ہے۔ (نقوشِ سلیمانی)
سادگی اور سلاست
سید صاحب کی تحریروں میں سادگی اور سلاست ہے مگر وہ خشک اور بے جان
نہیںبلکہ اسمیں شگفتگی اور لطافت کی چاشنی ہے۔ وہ ایک معلم اور مدرس کی طرح
تشریحی اور توفیہی انداز اختیار کرتے ہیں۔ سیرت نبوی میں جہاں سرکارِ
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی جامیعت بیان کی ہے وہاں بھی اندازِ
بیان سہل اور سادہ ہے۔ عکسِ تحریر پیش ہے:
اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہ رضہ اور عائشہ رضہ کے مقدس شوہر کی
حیاتِ پاک کا مطالعہ کرو ۔ اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ رضہ کے باپ اور حسن
رضہ و حسین رضہ کے نانا کا حال پوچھو۔
سنجیدگی اور شائستگی
سید صاحب نے علمی اور ادبی جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا عالمانہ سنجیدگی اور شائستگی کو برقرار رکھا۔ خواہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا سیرتِ عائشہ رضہ یا قیام جیسی معرکةآرا تحقیقی تصنیف ہو یا ارض القرآن سب میں ان کا شائستہ انداز اور سنجیدگی و دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
استدلالی انداز
چونکہ سید صاحب ایک دانشور، عالم دین اور سیاسی لیڈر بھی تھے۔ لہذا ان کی
تحریروں میں منطقیانہ طرزِ استدلال ملتا ہے۔ زبان و بیان کی بحث ہو یا
سیاسی معاملات ہوں یا مذہبی مباحثہ ہو ہر جگہ موضوع کو دلیل سے واضح کرتے
ہیں۔ وضاحت کا پیرایہ اختیار کرتے ہیں۔ اور اپنی بات میں دلیل سے وزن پیدا
کرتے ہیں۔ خصوصیت سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خطباتِ مدارس میں یہ رنگ بہت نمایاں ہیں۔
اختصار و جامعیت ادبی، علمی اور تحقیقی موضوعات میں سید صاحب کا
اندازِ بیان نہایت جامع اور مختصر ہوتا ہے۔ یہ بات کتنی ہی پیچیدہ اور
تفصیل طلب ہو وہ اسے ایسے مناسب اختصار لیکن جامعیت سے بیان کرتے کہ بے
ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ارض القرآن ہے
جس میں قرآن کا جغرافیہ، اقوام عرب کے تاریخی، نسبی، قومی، تجارتی اور
تمدنی حالات پر بحث کرے ہوئے بھی اسلوب کی یہ صفت برقرار رہتی ہے۔
دلکشی اور رعنائی
سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا موضوع سنجیدگی، علمی متانت اور
تمکنت کا تقاضا کرتا ہے۔ مگر سید صاحب کے قلم گوہر بار نے اپنے دلکش اور
دلچسپ اندازِ بیان کی وجہ سے اسے بھی دلکشی ورعنائی عطا کردی ہے۔ سیرت کی
ایک ایک سطر اس امر کی گواہ ہے کہ لکھنے والا عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ
وسلم سے سرشار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے اس کے لہجے کو
شیرینی،دلکشی و رعنائی عطا کی ہے۔ اظہار کی یہ دلکشی ہی ان کی تحریر کا
حسنِ لازوال ہے۔
خلوص و دیانت
مذہب ہو، تاریخ و سیاست ہو، سید صاحب نے جس موضوع پر اظہار خیال کیا نہایت
خلوص و دیانت کے ساتھ اس کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔ اپنے نقطہ نظر کو
قارئین تک دیانت داری اور صداقت سے پہنچانے کی خاطر انہوں نے اپنے قلم کو
کسی تعصب یا معاصرانہ چشمک سے آلودہ نہیں ہونے دیا اور پاک و صاف طرزِ
بیان کو اپنا طرئہ امتیاز بنایا۔
تحقیق و جستجو
علومِ اسلامی کے تمام شعبوں میں سید صاحب نے تحقیقی و جستجو کو حق کمال
عمدگی سے ادا کیا۔ ان کی تحریریں اپنے موضوعار کے مختلف پہلووں کا احاطہ
کرتی ہیں۔ خواہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا سیرتِ عائشہ رضہ، ارض القرآن ہو یا عربوں کی جہاز رانی، عمر خیام ہو یا درس الادب ان کی علمی دیانت، صداقت، تحقیق اس ا۹۶۳۔اعلی پائے کی ہے کہ آنکھ بند کرکے ان کے تحقیقی نتائج پر اعتبار کرلیتا ہے۔
آراہ ناقدین
سید سلیمان ندوی کی شخصیت پر کئی افراد نے جامع اور خوبصورت تبصرہ کیا جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
جوئے اسلام کے جس فرہاد نے شبلی، اقبال اور ابوالکلام آزاد سبھی کے
خواب شیریںکی تعبیر نکالی اور اس کو پورا کرنے کے لئے تحقیق و تصنیف کی
ایک شاہراہ قائم کی نیز اس پر گامزن ہونے کے لئے پورا ایک قافلہ مرتب کیا
اس کانام ’سید سلیمان ندوی‘ ہے۔ (شاعرِ مشرق علامہ اقبال)
سیرت کے سلسلے میں خطباتِ مدراس نے بڑی سے بڑی ضخیم کتابوں کے مقابلے میں جو مقبولیت حاصل کی، اس کی مثال ادب میں نہیں ملتی۔ (ڈاکٹر نظیر حسین زیدی)
حرفِ آخر
ان ہی تمام صفات و خصوصیات کی بناءپر انہیں وہ ناقابلِ فراموش مقام حاصل
ہوا جس کی بدولت ان کی ادبی، سیاسی، مذہبی اور علمی کاوشوں کی باوقار ادب
میں پزیرائی ملی اور جس کی بدولت ان کا کام ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا۔ ان کے
استاد کا قائم کردہ ادارہ ”ندوةالعلمائ“ جس کو انہوں نے اپنی محنت سے چار
چاند لگادئیے۔ جس کے فروغ علم کی کاوشوں نے علمی دنیا کو آج بھی منور کیا
ہو اہے۔ وہ ندوة العلماء بھی ان کی شخصیت گراں مایہ ایک منفرد پہلو ہے۔
اس قدر شہرت، عزت و عظمت کے باوجود انہوں نے ہمیشہ شبلی کی شاگردی کو اپنے
لئے باعثِ اعزاز و امتیاز جانا اور اس پر ہمیشہ فخر کیاجو ان کی عظمت کی
دلیل ہے۔ یہ تاریخ ساز شخصیت ہمیشہ اپنے کارناموں کی بدولت زندہ و
جاویدرہے گی
ہوئیں فسانہ تاریخ ان گنت نسلیں
اور وہی ہے جو تاریخ ساز ہو کے رہا
__________________________________________________________________________________
مولانا الطاف حسین حالی
تعارف
بقول حالی
اے شعرِ دل فریب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر تجھ پر حیف ہے جونہ ہو دل گداز تو
خواجہ الطاف حسین اردو ادب و سخن میں ایک ایسا نام ہے جس کے احسانات کی
بدولت جدید اردو عالمی معیار کے سفر پر گامزن ہوگئی۔ وہ ایک ایسا شخص تھا
جس نے ادب و سخن دونوں میں بھرپور خامہ فرسائی کی اور اہلِ دنیا سے داد و
تحسین وصول کی۔ اسی کی کاوشوں کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں علم و عمل کے
چراغ روشن ہوئے اور بصیرتوں کو زندگی کا سراغ ملا۔ اردو علم و ادب کا ہر
شعبہ اس کا ممنوع احسان ہے۔ شاعری ہو یا نثر، تنقید ہو یا تحقیق ہر پہلو
میں حالی ہی کو معیار سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے بارے میں ارشاد ہے:
حالی کا اندازِ تحریر سادہ و سلیس ہے۔ وہ زبان سے زیادہ مطلب پر توجہ
دیتی ہیں اور آرائش ِ زبان کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ ان کی تحریر میں تکلف
نہیں بلکہ خلوص اور سچائی ہے۔ (ڈاکٹر وحید قریشی )
طرزِ نگارش
الطاف حسین حالی کی نثرنگاری کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
مقصدیت
حالی نے ہمیشہ مقصدیت کو اولین ترجیح دی اور اپنی تحریروں سے اصلاح معاشرہ
کی کاوشیں کیں۔ آپ نے ادب و سخن کو زندگی کا حقیقی ترجمان بنا ڈالا
کیونکہ آپ کے نظریہ کے مطابق ایسا ادب بے ادبی ہے جو ترجمان ِ حیات نہ ہو۔
مثال کے طور پر وہ رقم طراز ہیں:
میں نے جو کچھ لکھا اس کا منشاءوہ ضرورت وہ مصلحت ہے جس کے سبب سے
بھولے کو راہ بتائی جاتی ہے اور مریض کو دوائے تلخ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ (مقالات حالی)
سادگی و سلاست
حالی کی تحریریں سادہ اور سلیس جملوں پر مشتمل ہوتی ہیں جب میں مدعا
انتہائی شستہ پیراوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ حوالہ جاتی مضامین ہوں، سوانح
نگاری ہو یا تنقید کا سخت میزان ان کی بات سیدھا اور واضح مفہوم رکھتی ہے۔
تنقید نگاری
اردو دنیائے ادب میں باضابطہ تنقید نگاری کا آغاز حالی کی آمد سے ہوا۔ آپ
نے اپنی بیشتر تحریروں میں تنقید کا سہارا لیا۔ آپ نے کبھی حقیقیت کا دامن
ہاتھ سے نہ جانے دیا اور تحریر اور کردار کو داغدار ہونے سے ہمیشہ بچایا۔
آپ نے ایک جگہ تحریر کیا:
سرسید کی طبیعت ڈسپاٹک تھی، یعنی آمرانہ۔
ایک اور جگہ آپ سرسید کے بارے میں فرماتے ہیں:
قرآن کی تفسیر لکھنے میں سرسید سے جابجا غلطیاں ہوئی ہیں اور انہوں نے جابجا ٹھوکریں کھائیں ہیں۔
آپ کی وہ کتاب جس میں آپ نے اپنی تنقیدی صلاحیتیوں کا بھرپور اظہار کیا ”میزان ِ شعر و سخن“ کے نام سے مشہور ہے۔
سوانح نگاری
خواجہ الطاف حسین حالی جدید سوانح نگاری کے موجد ہیں۔ موجد ہونے کے باوجود
آپ نے اس صنفِ ادب کی معراج کو چھویا اور بہترین نمونہ�¿ تحاریر پیش کئے۔
آپ کے چند مشہور سوانح درج ذیل شخصیتوں پر مبنی ہیں:
- شیخ سعدی حیات سعدی
- مرزا غالب یادگارِ غالب
- سرسید احمد خان
حسنِ تخیل
خواجہ الطاف حسین حالی کے نثر پاروں میں تخیل کی کارفرمائی موجود ہے جو ان
تحریروں میں شاعرانہ دل کشی کا واحد سبب ہے۔ یہ تخیل ان کے جذبات کا
آئینہ دار ہے۔ مثال کے طور پروہ رقم طراز ہیں:
جس طرح تلوار کی کاٹ درحقیقت اس کی باڑھ میں نہیں بلکہ سپاہی کے کرخت
ہاتھ میں ہے، اس طرح کلام کی تاثیر اس کے الفاظ میں نہیں بلکہ متکلم کی
سچائی، اس کے نڈر دل اور بے لاگ زبان میں ہے۔ (حیاتِ جاوید)
تنوع مضامین
حالی وہ پہلے فرد ہیں جنہوں نے اردو میں ادبی، سائنسی، تنقیدی و شاعرانہ
مباحثے بہت کامیابی سے پیش کیے۔ ان کی تحریروں میں حیرت انگیز تنوع پایا
جاتا ہے اور ہر موضوع کا رنگ ملتا ہے۔ آپ کے بارے لکھا گیا:
عملی نظریات اور اظہارِ حقائق کے لئے حالی کے نثر سے بہتر پیرائیہ بیان اردو میں نہیں ہے۔ (ڈاکٹر سید عبداللہ)
انگریزی الفاظ کا استعمال
سرسید احمد خان کی طرح حالی کی تحریروں میں بھی جابجا انگریزی الفاظ کا
استعمال ملتا ہے۔ آپ مقصدیت پر زور دیتے ہوئے بعض اوقات شعوری طور پر بھی
یہ الفاظ استعمال کرجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ لکھتے ہیں:
مگر ایک مورلسٹ شاعر ان سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے۔
جس کے لٹریچر کی عمر پچاس برس سے زائد نہیں۔
جس کی گرامر آج تک اطمینان کے قابل نہیں بنی۔
آراہ ناقدین
مختلف تنقید نگار حالی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنی انداز میں لکھتے ہیں:
حالی کے یہاں سرسید سے بھی زیادہ جچا تلا اندازِ فطرت پرستی نظر آتا ہے۔ ( پروفیسر آل احمد سرور)
حالی کا اسلوب ِ تحریر بہت صاف اور سادہ ہے اور جس صفائی اور سادگی کو
وہ شاعری اور شاعروں کے لئے ضروری سمجھتے ہیں، اسے نثر نگاری کے لئے بھی
لازمی جانتے ہیں۔ (ڈاکٹر ابولیث صدیقی)
حالی نے اپنے قدم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس میں اچھے کو بر ے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ (پروفیسر احتشام حسین
__________________________________________________________________________________
سرسید احمد خان
حالات ِ زندگی
سرسید احمد خان ۷۱۸۱ءمیں دہلی میں پیدا ہوا۔ والد کا نام میر تقی تھا جو
ایک درویش منش بزرگ تھے۔ سرسید کی پرورش میں ان کی والدہ عزیز النساء بیگم
کا بڑا ہاتھ تھا۔ جنہوں نے سرسید کی تعلیم و تربیت زمانے کی ضروریات کے
مطابق کی۔۸۳۸۱ءمیں سرسید دہلی میں سرشتہ دار کے عہدہ پر مقرر ہوئے اس کے
بعد منصفی کا امتحان پاس کرکے منصف ہوگئے۔ ۲۴۸۱ءمیں بہادر شاہ ظفر کی طرف
سے ان کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب ملا۔
تصانیف
سرسید کی مشہور تصانیف میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- آثار الضادید
- آئین اکبری
- تاریخ ضلع بجنور
- رسالہ اسباب بغاوت ہند
- تصحیح تاریخ فیروز شاہ
- تین الکلام
- تفسیر الکلام
- تفسیرالقرآن
- خطباتِ احمدیہ
طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات
سرسید کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
'قدیم رنگ
سرسید نے سب سے پہلے اپنے بھائی کے اخبار سید الاخبار میں مضامین
لکھنا شروع کئے۔ آثارالضادید میں وہی قدیم اسلوبِ بیان ملتا ہے۔ بلکہ
۷۵۸۱ءتک سرسید نے جو کچھ لکھا ہے امیں یہی رنگ نمایاں ہے۔ یعنی الفاظ کا
بے محل استعمال اور قواعد سے بے پروا۔
وہ تحریر یا تقریر کی رو میں گرامر کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے ۔وہ ان
قیدوں سے جو شاعروں اور منشیوں نے مقرر کی ہیں بالکل آزاد ہیں۔ (حالی)
وہ دور ہی ایسا تھا کہ قواعد کی پابندی سخت نہ تھی۔ الفاظ کی بے ترتیبی
عام تھی۔ اردو فقروں میں اکثر دھوکہ ہوتا تھا کہ فارسی کا ترجمہ ہیں لیکن
سرسید کو اس امر کا احساس تھا کہ اس قسم کی تحریر بہتر نہیں ہے۔
جدید رنگ
سرسید کی شخصیت بڑی زمانہ شناس تھی۔ انہوں نے زمانے کا رنگ پہچان لیا تھا۔
جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی سیاسی، تمدنی، تہذیبی اور
معاشرتی زندگی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ سرسید نے ایک مصلح قوم ہونے
کی حیثیت سے اپنا مقصد حیات، مسلک زندگی اور لائحہ عمل متعین کرلیا اور
تحریرو تقریر کے ذریعہ قومی و ملکی، مذہبی، معاشرتی، اخلاقی، علمی اور
تعلیمی خدمات شروع کیں۔ انہوں نے آثار الضادید کو آسان زبان میں شائع کیا۔
سادگی و روانی
نثر کا روز مرہ کی سادہ بات چیت کی زبان سے قریب تر ہونا بہت ضروری ہے۔
سرسید نے اپنی نثر کو اسی نصب العین پر پورا اتارنے کی پوری کوشش کی ہے۔
اس میدان میں وہ اسٹیل اور ایڈیسن سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جس طرح ایڈیسن کے
متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ادب کو درباروں اور محلوں سے نکال کر قہوہ
خانوں اور بازارون تک پہنچا دیا۔ اسی طرح سرسید نے اردو ادب کو خانقاہ،
دربار اور کوچہ و بام سے نکال کر دفتروں، تعلیم گاہوں اور متوسط طبقے کے دل
و دماغ تک پہنچا دیا اور اس سے زندگی کی رہنمائی کا کام لیا اور اردو نثر
کو اس قابل بنادیا کہ وہ علمی کام کرسکے۔ سرسید پیچیدہ سیاسی مسائل،
مذہبی نکات، اور دشوار اصلاحی مباحث کو بھی نہایت صفائی، سادگی اور بے
تکلفی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ سرسید نے فلسفیانہ، سائنسی اور تنقیدی
مضامین میں بھی سادگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر جگہ موضوع کی فطرت
کے مطابق زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے کسی بحث میں بھی اصطلاحیں استعمال
نہیں کی ہیں بلکہ ہر جگہ ان کی زبان عام فہم اور رواں ہے۔ ان کی تحریر کا
جادو ہر شخص کو مسحور کرلیتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال اس وقت ظاہر ہوتا
ہے جب وہ کسی عملی مسئلہ پر بحث شروع کرتے ہیں اور ان کی بحث اتنی سادہ،
رواں اور مدلل ہوتی ہے اسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔
مقصدیت
یہ مقولہ کہ طرزِ ادا مصنف کی ہستی کا آئینہ دار ہوتا ہے سرسید پر صادق
آتا ہے۔ ان کے طرزِ تحریر میں ان کی ہمہ گیر شخصیت ان کی زندگی اور ان کے
ماحول کا مشترکہ ہاتھ تھا۔ سرسید پہلے ایک مصلح تھے پھر ایک ادیب ۔ ان کا
طرز ایک ذریعہ تھا مقصد نہیںتھا۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانا یہی حقیقت
سرسید کے انداز کا راز ہے۔ انہوں نے اپنی نثر سے قومی اصلاح کا کام لیا ہے۔
یہی وجہ تھی جو سرسید کے لئے کہا گیا:
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو وہ کچھ نہیں رہتے۔ (مہدی آفادی)
تہذیب الاخلاق کے تمام مضامین میں مقصدیت اور تبلیغی رنگ پایا جاتا ہے۔
تبلیغی نثر اردو میں سرسید سے پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کی زبان صاف اور
سادہ نہیں تھی۔
ظرافت
سرسید ایڈیسن اور اسٹیل سے متاثر ضرور نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے ان کا
مکمل رنگ اختیار کیا ہے۔ کیونکہ ایڈیسن نے اصلاح احوال کے لئے مزاحیہ
انداز اختیار کیا ہے اور اپنے معاشرے کی بد اخلاقیوں اور برائیوں کا دل
کھول کر تمسخر اڑایا ہے۔ سرسید میں مزاح نگار کی صلاحیتیں کم تھےں اس لئے
وہ مکمل طور پر ان کا رنگ اختیار نہ کرسکے۔ انہوں نے کوشش ضرور کی ہے اور
اس سے موقع محل کے مطابق کام لیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کے مضمون طریق تناول طعام میں ملتی ہے۔ جس میں انہوں نے مزاحیہ انداز میں یہ بتایا ہے کہ مسلمان کس برے طریقے سے کھانا کھاتے ہیں۔
تمثیلی رنگ
مقالات میں تمثیلی رنگ اختیار کرنے کا سہرا سرسید کے سر ہے۔ اس سلسلہ میں ان مضامین میں امید کی خوشی
سے بہتر مضمون شاید ہی دوسری زبانوں میں اردو ادب میں تو اس کا ثانی نہیں
ملتا۔ سرسید کی فطرت میں چھپی ہوئی رومانیت اس مضمون میں نمایاں ہے۔ اور
اس نے اردو نثر نگاری میں ایک نیا باب کھالا ہے۔ اس کا مقابلہ چارلس لیمپ
کے مضمون ڈریم چلڈرن سے کیا جاسکتا ہے۔
مقالہ نگاری
اردو ادب کی تاریخ میں سرسید پہلے شخص ہیں جہنوں نے فن مقالہ نگاری کی ابتدا کی۔ سرسید کے اخبارسوسائٹی گزٹ اورتہذیب الاخلاق
سے پہلے بہت سے اخباروں اور رسالوں میں مذہبی، اخلاقی اور علمی مقالے
شائع ہوئے تھے۔ لیکن سرسید نے نئے موضوعات پر قلم اٹھایا، خوشامد، بحث و
تکرار، رسم ورواج اور سویلزیشن وغیرہ پر انہوں نے صاف اور سادہ زبان میں
مقالے لکھے۔ سرسید نے آزادی رائے پر ایک اصلاحی مقالہ تحقیقی رنگ میں
لکھا۔
تہذیب الاخلاق
انگلستان سے واپسی پر انہوں نے انگلستان کے مشہور اخبارات اسپیکٹیٹر اور
ٹیٹلڑ کے انداز پر رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ اس سے انہوں نے نہ صرف اپنی
نثر نگاری کی ابتدا کی بلکہ اردو نثرنگاری کے لئے ایک صحیح اور سیدھا
راستہ کھول دیا۔
سرسید نے کام کی زبان میں کام کی باتیں لکھنا سکھائیں۔ تہذیب الاخلاق
نے مردہ قوم میں زندہ دلی کی ایک لہر پیدا کردی ۔ قوم میں ایک غیر معمولی
جوش عمل پیدا ہوا ایک نئی زندگی نے انگڑائی لی جس نے ہر شعبہ فکر کو بدل
دیا۔ (پروفیسر آل احمد سرور)
دبستانِ سرسید
سرسید انیسویں صدی کے ہندوستان کی عظیم شخصیت رہبر و مصلح تھے۔ وہ
مسلمانوں کے اخلاق، مذہب، معاشرتی زندگی، تعلیم، رسم و رواج اور زبان و ادب
وغیرہ کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ اس اصلاحی کوشش میں ان کو محسن الملک،
مولوی چراغ علی، مولوی ذکاءاللہ، حالی نذیر احمد، شبلی نعمانی اور مولوی
زین العابدین جیسی شخصیتیں مل گئیں۔ جنہوں نے سرسید کے دوش بدوش اس عظیم
مقصد کی تکمیل کی کوشش کی جس کے لئے سرسید نے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ اس
تحریک نے مسلمانوں کی کایا پلٹ دی۔
عظمتِ سرسید
سرسید کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے:
سرسید نے ادب اور معقولات پر جس حد تک مجتہدانہ رنگ چڑھایادراصل ان کی
اولیات میں داخل ہونے کے لائق ہے۔ یہ ان ہی کے قلم کی آواز بازگشت ہے جو
ملک مےں بڑے بڑے مصنف کے لئے دلیل راہ بنی۔ آج جو خےالات بڑی آب و تاب اور
عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ مختلف لباس میں جلو ہ گرکئے جاتے ہیں دراصل اسی
زبردست اور مستقل شخصیت کے عوارض ہیں۔ ورنہ پہلے یہ جنس گراں باوصف
استطاعت اچھے اچھوں کی دسترس سے باہر تھی۔ سرسید کے کمالات ادبی کا عدم
اعتراف صرف ناشکری صرف ناشکری ہی نہیں بلکہ تاریخی غلطیہے۔ (مہدی آفادی)
___________________________________________________________________________________
مولانا محمد حسین آزاد
حالاتِ زندگی
آزاد ۲۳۸۱ءمیں دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد باقر تھا جن کے
استاد ذوق سے بہت قریبی تعلقات تھے۔ آزاد نے ان کی ہی زیرِ نگرانی تربیت
پائی۔ ان کے والد محمد باقر نے دہلی میں اردو کا سب سے پہلا اخبار نکالا تو
تعلیم و تربیت اور ذوق کی شاگردی نے آزاد کو اور پختہ کردیا۔
ادبی و علمی خدمات اور طرز تحریر
اردو نثرنگار میں آزاد ایک بلند اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک صاحب
طرز انشاءپرداز ہیں ان کی تحیری میں بھاشا کی سادگی، بے تکلفی انگریزی کی
صاف گوئی فارسی کی شیرینی، حسن اور خوبصورتی پائی جاتی ہے ان کی نثر میں
موسیقیت پائی جاتی ہے ۔وہ الفاظ اور محاورہ کے استعمال میں توازن اور تناسب
کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں تصنع اور تکلف سے پاک ہیں۔ ان کی طبیعت
میں ندرت و دنت طرازی ہے۔ لطیف تشبیہیں اور استعارے ان کی تحریر کے حسن
کو دو بالا کردیتے ہیں۔ آزاد کے طرزِ نگارش کی ایک اہم خصوصیت ہے کہ ان کی
تحریر پہلو دار ہوتی ہے ۔
وہ تنقید کرتے وقت بھی کھل کر میدان میں نہیں آتے بلکہ پہلو سے وار کرتے
ہیں۔ اور پڑھنے والا ان کی انشاء کی رنگینی میں ایسا کھو جاتا ہے کہ اس کو
احساس نہیں رہتا کہ انہوں نے کہاں چٹکی لی ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر یہ
بھی احساس ہوتا ہے کہ ان کی ذہنی فضا احساسات اور تاثرات سے بھری ہوئی ہے۔
زبان و بیان کی شیرینی میں ان کا کوئی مدمقابل نہیں ہوسکا۔
بحیثیت تذکرہ نگار
آب حیات میں آزاد نے شعر کی زندگی اور ان کی شاعری پر روشنی ڈالی وہ
تذکرہ سے زیادہ تاریخ ہے۔ آب حیات اردو زبان اور شاعری کا اہم ماخذ ہے اور
اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے پہلی بار زبان کے مزاج
اور اس کی قدیم تاریخ کا سراغ لگانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
نیرنگِ خیال
اردو میں تمثیل نگاری کی طرف بہت توجہ دی گئی ہے۔ اس کے جو نمونے ملتے ہیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- قصہ گل بکاولی
- سب رس
- گلزار ابراہیم
- جہادِ اکبر
یہ تمام فارسی تمثیلات سے مشابہ اور مماثلت رکھتی ہیں۔ موضوعات کے
اعتبار سے بھی ان میں کوئی فرق نہیں ہے سب ہی میں تصوف، وحدت الوجود تر کو
دنیا اور متعلقات تصوف کو تمثیلاً بیان کیا گیا ہے۔ آزاد نیرنگ خیال اردو
کی پہلی تمثیل ہے جس کا موضوع تصوف نہیں ہے بلکہ اس میں دیگر مباحث اور
مسائل کو حسین اور دلکش انداز پیش کیا گیا ہے۔
بحیثیت مورخ
دربارِ اکبر عہد اکبری کی تاریخ ہے۔ جس میں بادشاہ کی ذاتی، درباری آئینی
اور ملکی حالات، سلطنت کے خاص امراء و عمائدین اور علماءوغیرہ کے حالات
بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ آزاد نے اکبر کے دین الہی اور علماءکی توہین
کو بہت سراہا ہے اس کے علاوہ ان کی زبان کی رنگینی اور تخئیل کی پرواز نے
دربارِ اکبر کو تاریخ سے زیادہ افسانہ بنادیا ہے۔
سخندان فارس
آزاد کی اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے میں فارسی زبان کی اصل ساخت کو بیان
کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں ایران کی آب و ہوا اور وہاں کی تہذیب و تمدن،
شاعروں اور مصنفوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اردو میں اس موضوع پر
کوئی کتاب موجود نہ تھی لیکن اس میں بھی آزاد کی رنگینی تحریر موجود ہے۔
انگریزی الفاظ
آزاد نے جہاں اپنی تحریروں میں عربی، فارسی اور ہندی کے الفاظ بیان کئے
ہیں وہاں انگریزی سے بھی بے تکلف فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بلا
ضرورت نہ انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں نہ عربی کہ جس کو پڑھتے وقت، کیف
سرور محسوس ہوتا ہے۔
آراہ ناقدین
آزاد کی بعض خامیوں کے باوجود ان کی عظمت کو سب نے تسلیم کیا ہے۔ ان کی موت پر کہا گیا
تاریخِ وفات اس کی جو پوچھے کوئی حالی
کہ دو کہ ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا (حالی)
شبلی نعمانی نے آزاد کو اردوئے معلی کا ہیرو کہا ہے اور آزاد کے انتقال پر شبلی نے ان کو خدائے اردو کہہ کر یادکیا:
وہ تحقیقی کا مردِ میدان نہیں تاہم ادھر ادھر کی گپیں ہانک دیتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہیں۔ (شبلی نعمانی)
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو کچھ نہیں رہتے، نذیر احمد بغیر مذہب
کے لقمہ نہیں توڑ سکتے۔ شبلی سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ
جائیں گے، حالی بھی جہاں تک نثر نگاری کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل
سکتے ہیں۔ لیکن آقائے اردو یعنی پروفیسر آزاد ایسے انشاء پرداز ہیں جن کو
کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں۔ (ڈاکٹر سید عبداللہ)
الفاظ کا انتخاب اور زبان کی شیرینی اور جابجا تشبییہ اور استعارے کی
گل کاری عبارت میں حسن پیدا کردیتی ہے کہ پڑھتے چلے جائیے طبیعت سیر نہیں
ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ وہ اردو کہ بڑے انشاءپرداز اور ادیب شمار کئے جاتے
ہیں۔ (ڈاکٹر اعجاز حسین
_________________________________________________________________________________
شبلی نعمانی
طرزِ تحریر
انیسویں صدی اردو زبان کی بقاء اور زندگی کا پیغام لے کر آئی۔ اس صدی میں
بڑے بڑے شاعر ادیب اور انشاء پرداز پیدا ہوئے۔ غالب، مومن، ذوق اور انیس
وغیرہ نے اردو زبان کی آبیاری کی انہی کے ساتھ ساتھ اردو کے عناص خمسہ
سرسید، نذیر احمد، آزاد، حالی اور شبلی نے آنکھیں کھولیں۔ جنہوں نے اپنی
فطری صلاحیتوں اور خداد ذہانت سے اردو کو تاج محل سے زیادہ حسین و جمیل
بنادیا ان میں سے ہر ایک شخص ایک ادبی اکیڈمی سے کم نہیں ہے۔ لیکن شبلی میں
جو ہم گیر ادبی صلاحیتیں اور خصوصیات جمع ہیں وہ کسی اور میں نہیں ہیں۔
وہ بیک وقت بے مثال ادیب، سوانح نگار، محقق، فلسفی، نقاد اور شاعر تھے۔ ان
کی تحریر کی اولین صفت و قوت اور جوش ہے جو ان کے احساس کمال اور احساس
عظمت کی پیداوار ہے۔ ان کے یہاں سنجیدگی کے ساتھ دلکشی اور شگفتگی بھی ہے
ان کی نثر کی ایک خصوصیت یہ اس میں فکری قوت اور منطقی استدلال کے ساتھ
ساتھ لطف و اثر بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے اندازِ بیان میں نزاکت، شیرینی،
فصاحت اور روانی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنی نثر میں آثر آفرینی کے لئے شاعرانہ
وسائل سے کام لیتے ہیں۔ وہ ایک ماہر نگینہ ساز کی طرح الفاظ کے نگینوں کو
انتہائی خوبصورتی سے جڑنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا فنکارانہ
مزاج، شاعر کا دل، نفاست پسندی اور شاہانہ مزاہ ہے۔ انہوں نے عربی اور
فارسی کے ساتھ دیسی بھاشاوں کے الفاظ و خیالات، تشبیہات و استعاروں کو بھی
اپنا ہے اور تصنع اور تکلف کی بجائے سادگی اور سچائی اختیار کی ہے۔ ان کی
تحریر میں ایک لذت ہے وہ دل کی بات زبان سے ادا کرتے ہیں۔ اور اپنی باتوں
سے دوسروں کو متاثر کرنے کا خدادملکہ رکھتے ہیں۔ ان کی عبارت میں نہ تو
بے ربطی ملتی ہے، نہ تو خشکی اور روکھا پن بلکہ اس میں ایک لطیف آہنگ،
بلیغ موسیقیت اور ارفع ترنم پایا جاتا ہے۔ ان کی ادبی تحقیقات میں ان کا
مخصوص سحر آفریں اسلوب بیان نمایاں ہے۔ شبلی کے بیان کی بہت بڑی خصوصیت ان
کا ایجاز اور اختصار ہے۔ اختصار ان کے بیان میں حسن پیدا کردیتا ہے۔ انکی
نثر کی تاثیر کا یک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ بلا ضرورت جزئیات کو نظر انداز
کردیتے ہیں۔
غالب زندہ ہوتے تو شبلی کو اپنی اردو خاص کی داد ملتی جس نے ایک نوخیز
بازاری یعنی کل کی چھوکری کو جس پر انگلیاں اٹھتی تھےں آج اس لائق کردیا
کہ وہ اپنی بڑی بوڑھیوں اور ثقہ بہنوں یعنی دینا کی عالمی زبانوں سے
آنکھیں ملا سکتی ہے۔ جوانی پر آئی ہوئی نچلی نہیں بیٹھ سکتی تھی مدتوں
شعراءسے گاڑھا اتحاد رہا۔ اقتضائے سن بری طرح کھل کھیلی ہاتھ پاوں نکالے
اور بہتیرے بنائے بگاڑے کیونکہ ایک زمانہ شیدائی تھا لیکن باتوں ہی باتوں
میں سب کو ٹالتی رہے۔ اچھے دن آتے ہیں تو بگڑی بن جاتی ہے۔ اب وہ مقدس
علماء کی کنیزوں میں داخل ہے۔ لیکن سنا گیا ہے کہ خوش اوصاف شبلی سے زیادہ
مانوس ہے اور قریب قریب ان ہی کے تصرف میں رہتی ہے۔ (مہدی آفادی)
بحیثیت سیرت و سوانح نگار
شبلی نے سیرة النعمان، سوانح مولانا روم اور الغزالی وغیرہ سوانح عمریاں لکھیں ان کا سب سے بڑا کارنامہ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم
ہے جو انکی آخری تصنیف ہے۔ سیرت پر اس سے بہتر کتاب عربی، فارسی یا کسی
اور زبان میں موجود نہ تھی۔ شبلی نے سیرت کی صرف دو جلدیں لکھیں ہیں اس کے
بعد ان کا انتقال ہوگیا اور باقی انکے شاگرد رشید علامہ سید سلیمان ندوی
نے مکمل کیا۔ شبلی بھی حالی کی طرح انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف نہ تھے
لیکن آرنلڈ اور دوسرے انگریذ دوستوں کی مدد سے شبلی نے مغرب کے تنقیدی اور
ادبی تصورات سے استفادہ کیا تھا۔
بحیثیت مورخ
شبلی نے اردو مین تاریخ کا یک نیا تصور پیش کیا ہے اور ایک خاص معیار کام
کیا تاریخ کے جدید نظریہ کے مطابق حالات اور واقعات پر تحقیق اور عالمانہ
بحث کرکے اس کو مغربی تصانیف کے ہم پلہ بنادیا اور ساتھ ہی ساتھ دلچسپی
اور شگفتگی کو برقرار رکھا۔
ہم میں شبلی ایک ایسا شخص ے جو بلحاظ جامعیت، وسیع النظری، غوروحوض اور
مذاق فن کی حیثیت سے آج یورپ کے بڑے بڑے مورخوں کے پہلو بہ پہلو ہوسکتا
ہے۔ (مہدی آفادی)
فنی اعتبار سے سوانح نگاری اور تاریخ نویسی میں خاصا فرق ہے لیکن اس فرق
اس کے باوجود شبلی کے یہاں ان دونوں میں فاصلے زیادہ نہیں رہتے۔ وہ بنیادی
طور پر مورخ تھے ان کے سوانح پڑھتے وقت بار بار یہ بات سامنے آتی ہے کہ
وہ سوانح سے زیادہ زمانے کی تاریخ کو اہمیت دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی
سوانح تصانیف ہمیشہ اصول تاریخ نویسی سے بحث کی ہے۔ فن سوانح نگاری کا ذکر
تک نہیں کیا ہے۔
شبلی سے اگر تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ (مہدی آفادی)
مقالات و مضامین
شبلی کا عظیم کارنامہ ان کے علمی و تحقیقی مضامین اور مقالات ہیں ان
مقالات سے اردو میں علمی تحقیقی کا آغاز ہوا۔ ان مضامین میں کتب خانہ
اسکندریہ اور جزیہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ متعصب عیسائی مورخین کا یہ الزام
تھا کہ جب مسلمانوں نے اسکندریہ فتح کیا تو وہاں کے نادر کتب خانہ کو
جلادیا۔ شبلی نے عیسائی مورخین کی کتب ہی سے حوالے دے کر اس واقعہ کو غلط
ثابت کردیا۔ اسی طرح شبلی کے دوسرے مضامین میں جو اردو ادب میں گراں قدر
اضافہ ہیں مکاتیب شبلی کی خاص اہمیت ہے جن سے ان کی نجی زندگی، ان کے
معاصرین اور اس زمانی کے حالات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔
الغزالی
اس کتاب میں امام غزالی کے حالات، ان کے اصول و قواعد اور طرزِ استدلال
کی تفصیل بھی ہے اس طرح علم کلام کے بھی مسائل اس کتاب میں بیان کئے گئے
ہیں۔
سوانح مولانا روم
یہ شبلی کی بڑی نادر کتاب ہے اور ان کی وسعت فکرونظر کا نتیجہ ہے کہ
مولانا روم کو اہل کلام میں اور ان کی مثنوی کو تصانیف علم کلام میں شامل
کیا ہے۔ دراصل شبلی نے جس وقت سوانح مولانا روم لکھی اس وقت سر سید کے
اسلامی عقائد پر عقلی اور کلامی تاویلات کا ہر طرف چرچا تھا۔ شبلی جو سرسید
کی صحبت میں رہ چکے تھے اور وہیں سے علم کلام کا ذوق لے کر آئے تھے۔
عظمت ِ شبلی
شبلی سے پہلے سیرت، تنقید اور تاریخ پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ لیکن جب
انہوں نے ان چیزوں پر قلم اٹھایا تو اس زمین کو آسمان کردیا اردو میں پہلی
بار یہ بات نظر آئی کہ ذوق سلیم سیرت اس طرح مرتب کرتا ہی اور تاریخ و
تنقید اس طرح لکھی جاتی ہے ۔ ان کی علم الکلام اور اس فن سے متعلق الغزالی
اورسوانح مولانا روم اردو زبان کی اولیت میں داخل ہیں۔ شبلی ہی وہ شخص ہیں
جنہوں نے اس فن کی تاریخ و اصول اور اہل فن کا طریقہ عمل سے سے پہلے پیش
کیا ۔ اسی طرح ان کے مضامین جزیہ، کتب خانہ، اسکندریہ اور اورنگزیب
عالمگیر پر ایک نظر اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی چیزیں ہیں ۔ ان تمام
تصانیف میں جو بلاغت کلام ہی اس میں ان کا کوئی ہمسر نہیں۔
میرا بس چلے تو شبلی کو ہندوستان سے باہر کالے کوسوں یورپ کے کسی بیت
الحکما میں بھیج دوں جہاں ان کو اپنی غیر معمولی قابلیت کی داد بڑے بڑے
علمائے مستشر قین سے ملے گی جو بلحاظ ہم فنی ان کے یاران طریقت ہیں۔ شبلی
کا وسیع دائرہ تحقیقت اہل زبان کی سی فارسی اس میں بھی شاعری کا ملکہ رہا
اور سب سے زیادہ اپنی زبان میں ان کے لائق رشک انشاء پردازی وہ صفات ہیں
جو اعلانیہ ان کو ہم نفسوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ (مہدی آفادی
__________________________________________________________________________________
عبدالحلیم شرر
حالاتِ زندگی
شرر ۰۶۸۱ءمیں لکھنو میں پیدا ہوئے والد کا نام حکیم تفصل حسین تھا جو عربی اور فارسی کے بہت بڑے عالم تھے۔
ادبی وعلمی خدمات اور طرزِ تحریر
شرر کی تحریر میں سادگی اور روانی ہے اس میں دلکشی اور شگفتگی ہے وہ بے
تکلف اور بے تکلف اور بے تکان لکھتے ہیں لیکن روانی میں کوئی فرق نہےں آتا
کبھی یہ محسوس نہےں ہوتا کہ لکھنے والے کو الفاظ کی تلاش ہے۔ ان کی تحریر
اونچ نیچ سے پاک ہے وہ بر بات ایک ہی لہجہ میں کہتے ہیں ان کے یہاں
جمالیاتی حس پائی جاتی ہے۔ شرر نے انگریزی انشاء پردازی کے حسین بندھنوں کو
اردو میں داخل کیا ۔ گو انہوں نے تشبیہات اور استعارے اپنے ہی استعمال
کئے ہیں۔ شرر نے اپنی خیالی مضامین میں جو انگریزی ادیبوں کا رنگ اختیر
کیا ہے۔ شرر نے خیالی مضامین میں جو خیال آفرینیاں کی ہیں اور زبان اختیار
کی ہے اس کی نسبت سب کو اتفاق ہے کہ اردو کا یہ جدید رنگ ہے وہ جس چیز کی
تصور کھنچتے ہیں۔
بحیثیت ناول نگار
شرر نے اپنی ناول نگاری کی ابتدا دلچسپ سے کی تھی۔ انہوں نے
مسلمانوں کے ماضی کو زندہ کرنے اور اسلاف کی تعریف کی تاریخ بیان کرنے کے
لئے ناول کا سہارا لیا اپنی شہرت اور عوام کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے
خیالی اور معاشرتی کے مقابلوں میں تاریخی ناولوں کی طرف خاص توجہ دیہے ان
مضامین میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- حسن انجلین
- امنصور موہنا
- فلورا فلورنڈا
- شوقین ملکہ
- فردوس بریں نازنیں
- بابک خرمی
- ایام عرب
ایام عرب میں میں شرر نے دورِ جاہلیت کی معاشرتی زندگی کی
تصور انتہائی خوبصورتی سے کھینچی ہے۔ شرر کے ناول کے مطالعہ سے معلوم ہوتا
ہے کہ انہوں خصوصی طور پر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اس لئے وقت کے
ساتھ ساتھ ان کے ناول میں خیال آرائی کا رنگ چڑھتا گیا اور انہوں نے آسان
الفاظ میں واقعات کو دلکش بنانی کی کوشش کی ہے۔
کردار نگاری
شرر نے اپنے کردارون کا ایک ہی رخ پیش کیا ہے۔ اگر کوئی شخص بہادر ہے تو
صرف اس کی شجاعت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی چالباز اور بد نیت ہے تو اس
کی زندگی کا یہی رخ دکھادیتا ہے۔ وہ کسی کردار کی مکمل خوبیون اور برائیوں
کوظاہر نہیں کرتے۔ اگر کوئی جرنیل ہے تو صرف جرنیل ہے۔ اگر شہزادہ ہے تو
صرف شہزادہ ہے تو ان کی تمام دوسری حیثیتیں ہماری نگاہوں کے سامنے چھپی
رہتی ہیں۔ ان کے کرداروں میں بھی مناظر کی طرح یک رنگی ہے۔ ان کے تمام
کردار ایک ہی رنگ اور ایک ہی طریقے سے گفتگو کرتے ہیں ان کا مختلف انداز
نہیں اس سے ان کی انفرادی خصوصیت ختم ہوجاتی ہے۔ فنی خامیوں کے باوجود شرر
کے ناول بہت مشہور ہوئے۔ اس پستی و بربادی کے دور میں ان کے ناولوں نے
مسلمانوں کو روز مرہ کی تلخی بھلانے میں بڑی مدد کی۔ ماضی کے کارنامہ پڑھ
کر ان کو جذباتی تسکین ہوتی تھی۔ شرر کے قصوں میں ایک جوش اور روانی ہے جس
کی بدولت قصہ کی دلچسپی آخر تک باقی رہتی ہے ان کا مقصد اصلاحی ہے۔ وہ
اپنے ناولوں کے ذریعہ مسلمانوں کے متوسط طبقے کو ابھارنا چاہتے ہیں۔
مقالات و مضامین
شرر کے مضامین کا مجموعہ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ مضامین مختلف موضوعات
پر لکھے گئے ہیں۔ جب میں شاعرانہ، عاشقانہ، تاریخی، جغرافیائی اقوام کے
تذکرے اور مختلف ممالک و شہرون کے حالت شامل ہیں۔ ہندوستان میں مشرقی تمدن کا آخری نمونہ
خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح انہوں نے دنیا کی مشہور عورتوں اور مردوں
کے حالات بھی لکھے۔ ادب اور تحقیقی مسائل، قوم و ملت اور تاریخی واقعات پر
بھی خیال آرائی کیے ان کے مقالات میںدنیا آدھی رات اور آنے والی گھڑی شامل ہیں۔
صحافی ، مورخ اور سوانح نگار
شرر کے تمام مضامین میں ان کی صحافی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماہنامہ و لگداز کی وہی اہمیت ہے جو مخذن
کی۔ ایک عرصہ تک انہوں نے ایک صفحہ سے لے کر دوسرے صفحہ تک رسالہ کے
مضامین خود لکھے ہیں۔ یہ ان کی جرات اور عظمت کا ثبوت ہے۔ ان مضامین سے
عوام میں علم اور ادب کا شوق پیدا ہوا اور شر ر کی یہ خدمت فراموش نہیں کی
جاسکتی ان کی بحیثیت صحافی صاف گوئی اور دلیری کی داد دینی پڑتی ہے کہ
انہوں نے مسلمانوں میں پھیلے ہوئے غلط رسم و رواج پر صاف گوئی سے بحث کی
ہے۔ شرر نے تاریخی مضامین کے علاوہ کئی تاریخی کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں
تاریخی سندھ اور عصر قدیم شامل ہیں۔ سوانح حضرت بغدادی اور ابوبکر شبلی
وغیرہ بھی لکھیں۔ شرر نے چند ڈرامے بھی لکھے۔ جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- شہید وفا
- نیکی کا پھل
عظمتِ شرر
ناول نویس بھی، مورخ بھی اور صحافی بھی ہیں ڈرامہ نویس بھی، معلم بھی ہیں
اور نقاد بھی، انشاء پرداز بھی ہیں اور شاعر بھی ان کے مقالات اور مضامین
جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ان کی ہمہ گیرشخصیت کا ثبوت ہیں۔ ان کی تحریر
کو پڑھ کر کچھ اور پڑھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ ان کی کتابیں اردو نثر
کا پہلا زینہ ہے۔ ان کے مطالعھ سے جمالیاتی حس پیدا ہوتی ہے ان کے ناولوں
میں ایک حسن، دلکشی، کیفیت اور ایک چٹخارہ ہے۔ ان کے مضامین میں مناظرِ
فطرت کی خوبصورت تصویر ملتی ہے۔ عشق و محبت کی حسین وارداتیں ہیں۔ انہوں
نے اردو داں طبقہ کو تاریخ اور معاشرت کی متعلق بے شمارمعلومات فراہم کی
ہیں۔ ان کی تصانیف کی کثرت ہم کو قرون اولی کی یاد دلاتی ہے۔ جب کسی مصنف
کی کتابیں کئی کئی اونٹ پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاتی
تھیں۔
________________________________________________________________________________
ڈاکٹر سید عبداللہ
تعارف
ہزارہ جیسے پسماندہ علاقے کے ایک دوردراز پہاڑی گاوں میں پیدا ہونے والا
ایک بے وسیلہ اور بے سہارا نوجوان مالی مشکلات کی سختیاں سہتا اور قدم قدم
پر تلخی ایام کا مقابلہ کرتا بالاخر کامیابی منزل پر پہنچا۔ اپنی اعلی
تعلیمی قابلیت اور قابل تقلید علمی و ادبی شہرت کے بل بوتے پر یونیورسٹی
اورینٹل کالج کے پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ ثمرہ تھا سید عبداللہ
کی خداداد لیاقت اور مسلسل محنت و مطالعہ کا۔ ان کی طبیعت میں تحمل و
بردباری اور چیونٹی کی طرح اپنی دھن میں پوری تندہی سے کام میں جتے رہنے کا
جوہر ہی ان کی کامیابی و سرفرازی کا ضامن بنا۔ یونیورسٹی لائبریری میں
بحیثیت ریسرچ اسکالر ان کا قیام ان کی زندگی میں انقلاب کا باعث بنا۔ سالہا
سال تک قلمی کتابوں کی ورق گردانی نے ان میں برداشت اور حوصلہ مندی کے
جوہر کو مزید نکھار بخشا۔ انہیں یہ راز ہاتھ آگیا کہ متواتر مطالعہ اور کتب
بینی ہی سے علمی گہرائی اور فکری بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ یوں تو ڈاکٹر سید
عبداللہ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں مگر ان کی تین حیثیتیں سب سے نمایاں ہیں۔
وہ ایک بامور محقق، متوازن نقاد اور ہردلعزیز معلم تھے۔ تحقیقی میدان میں
وہ حافظ شیرانی اور ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی روایت کے امین تھے۔ تنقیدی
شعبے میں ان کا مسلک معتدل تھا۔ وہ مغربی اور مشرقی ادب اور تنقیدی روایات
سے آگاہی رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ ان کا
عمر بھر کا ساتھی رہا۔ ان کا کلاس لیکچر ہمیشہ نہایت مرتب اور معلومات
افزا ہوتا تھا کہ طلبہ کی بہت سی مشکلات دور ہوجاتی تھیں۔ جس موضوع پر وہ
خطاب کرتے اس میں کسی ابہام اور تشنگی کی گنجائش نہ رہتی اور انداز تخاطب
اس قدر دلنشین ہوتا کہ طلبہ ان کے لیکچر کا ایک ایک لفظ نوٹ کرلیتے۔ طلبہ
کے لئے وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ بلاشبہ وہ دھن کے پکے ایک بڑے آدمی
تھے اور بڑے آدمی کسی بڑے مقصد کے بغیر زندگی یوں ہی نہیں گزار دیتے۔ سید
عبداللہ اردو کو پاکستان میں اس کا اصل اور جائز مقام دلانے کا عہد کرچکے
تھے چنانچہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی کی ہر کوشش
کو وقف کئے رکھا۔
ڈاکٹر سید عبداللہ ایک وسیع المطالعہ شخصیت کے مالک تھے۔ اردو شاعری میں
میر، غالب اور اقبال ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی تین کتابیں نقدِ میر، اطرافِ غالب اور مقاماتِ اقبال
اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں۔ میر تقی میر سے ان کی عقیدت کی وجہ ان کی
طبعی دردمندی تھے۔ ان کی طبیعت کا گداز اور سوز دروں اسی درد پسندی کی دین
تھا۔ غالب کے ہاں فلسفہ زندگی اور انسانی نفسیات کا جو گہرا شعور پایا
جاتا ہے۔ سید صاحب اس کے قدردان تھے اور اقبال کی ملی شاعری ان کے ہاں
وج�¿ہ مقبولیت تھی۔
ڈاکٹر سید عبداللہ اعلی انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اورینٹل کالج مشرقی
زبانوں کا ادارہ ہے،سید صاحب کے زیر انتظام اس ادارے کو بہت فروغ حاصل
ہوا اور پنجاب یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں اور اداروں میں اسے امتیازی حیثیت
حاصل ہوئی۔ اردو کو ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دلانے اور ذریعہ تعلیم
بنانے کے لئے سید صاحب نے ایک تحریک کو منظم کیا اور تنہااس کے لئے ایک
ادارے کی طرح کام کیا۔ سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں انہوں نے محبان اردو
کو متحد و منظم کرکے ایک مضبوط قومی تحریک کی راہ ہموار کی۔ برصغیر پاک و
ہند کے علمی و ادبی حلقوں میں سید صاحب کو ایک بلند پایہ مرتبہ و مقام
حاصل ہے۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی کام کو اہلِ علم قدر کی نگاہ سے دیکھتے
ہیں۔مشرقی علوم اور السنہ کے حلقوں اور اداروں میں سید عبداللہ ایک معتبر و
مسلم شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسلوب تحریر
ڈاکٹر سید عبداللہ کے ہاں موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے تقریباً
نصف صدی تک اردو زبان تک اردو زبان و ادب کے سلسلے میں خدمات انجام دیں۔
اردو زبان کی لسانی و تاریخی حیثیت واہمیت پر انہوں نے تخلیقی و تنقیدی
حوالے سے نہایت قابلِ قدر کام کیا۔ رومن اور عربی رسم الخط کے تقابلی
مطالعے کے ذریعے اعلی تحقیقی مطالعہ پیش کیا۔ آپ کے اسلوبِ تحریر کی
نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
تنوع اور وسعت
سید عبداللہ نے جہاں ٹھوس علمی و ادبی موضوعات پر قلم اٹھایا وہاں عصری
مسائل بھی ان کی توجہ کا مرکز بنے۔ قومی زندگی میں وقتاً فوقتاً اٹھنے
والے تہذیبی، سماجی اور عمرانی مسائل پر بھی انہوں نے عالمانہ اظہار خیال
کیا۔ ان کا اندازِ بیان ہر موضوع کے لئے موزوں ہے۔
سائنسی اندازِ تحریر
ان کا طرزِ تحریر سائنٹیفک ہے۔ اس سلسلے میں وہ سرسید احمد خان کے پیرو
نظر آتے ہیں۔ لیکن سرسید کے برعکس اسلوب کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے
اسلوب تحریر میں سرسید اور شبلی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
سادگی و روانی
سید عبداللہ کے نزدیک زبان خیال و فکر کے ابلاغ اور ادراک کا ذریعہ ہے۔
چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بات کو سادگی اور روانی کے ساتھ پیش کریں
تاکہ قاری سہولت سے اسے سمجھ سکے۔ اس طرزِ تحریر کو سید صاحب مدعانگاری
قرار دیتے ہیں۔
بے ساختگی و برجستگی
سید صاحب نے اکثر علمی، فکری اور تنقیدی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور اس
کے لئے انشاپردازا نہ اسلوب نگارش کے بجائے بے ساختہ سادہ اور برجستہ بات
کہنا زیادہ مناسب حال ہوتا ہے۔ چنانچہ سید صاحب کے ہاں اس امر کا خاص خیال
رکھا گیا ہے کہ وہ لفظی شان و شکوہ دکھانے کے بجائے اصل توجہ اس بات پر
دیتے ہیں کہ ان کی بات بہتر طور پر قاری کی سمجھ میں آسکے۔
قوتِ استدلال
ڈاکٹر سید عبداللہ کے طرز تحریر میں منطق و استدلال کا خاص خیال رکھا جاتا
ہے۔ وہ اپنی بات میں دلیل سے وزن پیدا کرتے ہیں اور منطقی ربط کے ساتھ
اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی بات مربوط انداز میں صاف ستھرے
طریقے سے ادا کرتے ہیں۔
ادبی چاشنی
موضوع کتنا بھی علمی، فکری اور تحقیقی ہو سید صاحب اپنے طرز تحریر سے اسے
دلچسپ اور پرلطف بنادیتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں خشکی اور بے لطفی نہیں بلکہ
ان کے زبان و بیان میں ایک ادبی چاشنی کی گھلاوٹ موجود رہتی ہے۔ اس طرح
قاری پوری دلچسپی دلچسپی کے ساتھ ان کی تحریروں کا مطالعہ کرتا ہے۔
مقصدیت
ڈاکٹر سید عبداللہ ادب کو زندگی کا خادم سمجھتے ہیں۔ اس لئے محض عبارت
آرائی اور نری انشا پردازی کبھی ان کا مقصد نہیں بنتی چنانچہ ان کا علمی و
فکری اسلوب تحریر تنقیدی نگاری کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہے۔ جس طرح
وہ ایک متوازن نقاد تسلیم کئے جاتے ہیں اسی طرح ان کا طرزِ تحریر بھی
متوازن اور معتدل ہوتا ہے اور مقصدیت کی شان رکھتا ہے۔
اختصار و جامعیت
اپنی تحریروں میں سید صاحب چھوٹے چھوٹے مگر بلیغ اور معنی خیز جملے
استعمال کرتے ہیں، ان کے ہاں لفظوں کا استعمال باکفایت اور سادہ لیکن معانی
سے پر ہوتا ہے۔ تھوڑے لفظوں میں بڑی بات کہنے کا انداز ان کے اسلوب تحریر
کی خاص ادا ہے۔
ہلکا طنز
سید صاحب کی تحریروں میں کبھی طنز کا عنصر بھی آجاتا ہے مگر اس کی چبھن
نہایت دھیمی اور قدرے دلکش ہوتی ہے۔ یہ طنز وہ کبھی بے ضرر جملے اور کبھی
مناسب حال شعر یا مصرعہ کے ذریعے لاتے ہیں۔ اپنے مضمون اردو ذریعہ تعلیم میں انہوں نے میر تقی میر کے ایک شعر سے یہ کام لیا ہے
لگوائے پتھر اور برا بھی کہا کیے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے
شگفتگی و رعنائی
ڈاکٹر سید عبداللہ عربی، فارسی کے عالم تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی تحریروں
کو علمی نقاہت سے بوجھل نہیں ہونے نہیں دیا۔ بے شک ان کے ہاں ڈاکٹر مولوی
عبدالحق کی طرح ہندی الفاظ کے استعامل کی شعوری کوشش نہیں ملتی۔ لیکن زبان
کے معاملے میں وہ لئے دیئے رہنے کی روایت کے قائل نہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں
بعض معروف انگریزی الفاظ استعمال کی بھی گنجائش نکلتی ہے۔ وہ ایک بڑے
ماہر تعلیم بھی تھے اور زبان دانی کے عظیم عالم بھی۔ زبان کے معاملے میں
وہ کسی نارواتعصب کے روادار نہ تھے۔ وہ اردو زبان میں وسعت و تنوع پیدا
کرنے کے قائل تھے۔ چنانچہ زبان و بیان کے معاملے انہیں آزاد روی زیادہ
پسند تھے۔ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ حسن بیان فصاحت سے پیدا ہوتا ہے۔
اس نقطہ نظر نے ان کی تحریروں کو ایک قسم کی شگفتگی و رعنائی بخشی ہے۔
لغت سازی
کسی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے ضروری ہے کہ اس کا دامن علمی و فکری
اظہار کے لئے وسیع ہو۔ اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ
و اصطلاحات کو اپنے اندر سمونے اور سمیٹنے کی گنجائش رکھتی ہو۔ محض شعرو
ادب کے لئے محدود ہوجانے والی زبان کبھی زندہ زبان کا درجہ نہیں پاسکتی۔
زندہ اور پھلتے پھولتے رہنے والی زبان وہی ہو گی جو عام استعمال میں آئے
گی۔ ان حقائق کے پیش نظر ڈاکٹر سید عبداللہ نے اردو کو دوسری زبانوں کی
سیدھی سادھی آمیزش سے باثروت بنایا۔ نئے الفاظ اور اچھوتی تراکیب کے
استعمال سے انہوں نے اردو کو علمی اظہار خیال کے لئے آسان تر بنانے کی
کوشش کی۔ ان کے اس اندازِ بیان نے اردو نثر کو عام استعمال کے لئے حوصلہ
افزائی کی۔ وہ اردو پر محض ادبی اجارہ داری تسلیم نہیں کرتے تھے۔
________________________________________________________________________________
نیا قانون
تعارف
نیا قانون سعادت حسن منٹو کا ایک شاہکار افسانہ ہے جو ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے۔ یہ افسانہ ان کے افسانوں کے مجموعے منٹو کے بہترین افسانے سے ماخوذ ہے۔
منٹو کے یہاں ان کی سیاسی شعور کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ نیا قانون بھی اسی نوعیت کا افسانہ ہے
زیست قانون و فرامینِ قفس کے آگے
بے زبان ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا
شہر کی تیرہ و تاریک گذرگاہوں میں
داستاں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا
مرکزی خیال
طلوعِ صبح کا آغاز ہوچکا ہے مگر
ہمیں تو اب بھی اندھیرا دکھائی دیتا ہے
خلاصہ
کوچوان منگو افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ وہ ایک محب وطن شہری ہے جو اپنے
مرتبے کے لوگوں میں بہت دانشور سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سیاسی شعور بیدار ہے
اور یہ احساس کہ وہ ایک غلام قوم کا فرد ہے اس کے دل میں نفرت کا سمندر بن
چکا ہے
کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
منگو کوچوان اپنی سواریوں کی گفتگو بڑے غور سے سنتا تھا اور اس سے جو کچھ
اخذ کرتا وہ بطور خبر اپنے ساتھیوں کو سنادیا کرتا تھا۔ اسے انگریزوں سے
شدید نفرت تھی۔
ایک دن ٹانگے کی سواریوں کی گفتگو سے اسے کسی نئے قانون یعنی انڈیا ایکٹ
کے نفاذ کا علم ہوتا ہے اور اسے یہ سن کر بے انتہا خوشی محسوس ہوتی ہے کہ
پہلی اپریل کو اس قانون کے نفاذ کے نتیجے میں وہ اور اس کا ملک آزاد
ہوجائیں گے۔ اس خبر کے ساتھ اس کے ذہن میں ایک خوشگوار انقلاب کا تصور
انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔ آخر یکم اپریل کا سورج اس کے تصورکے مطابق حریت
کے متوالوں کے لئے نویدِ سحر لے کر طلوع ہوتا ہے۔ وہ اپنے حسین تصورات میں
گم اپنے ٹانگے پر شہر والوں کی بدلی کیفیات دیکھنے کے لئے نکلتا ہے مگر
اسے کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ گھومتے گھومتے وہ ایک جگہ سواری کی
تلاش میں رک جاتا ہے۔
ایک انگریز سواری اسے آواز دیتی ہے۔ قریب پہنچ کر وہ اسے پہنچان لیتا ہے
کہ ایک بار پہلے بھی اس کی تکرار اس سے ہوچکی تھی۔ وہ اس سے بہت حقارت
بھرے لہجے میں پوچھتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے۔ انگریز میں منگو کو پہنچان
لیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ پچھلی مرتبہ کی طرح کرائے پر اعتراض تو نہیں
کرے گا۔ انگریز کا فرعون صفت رویہ اس کے دل میں آگ لگا دیتا ہے۔ انگریز
منگو کے اس رویے کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکا۔ اور اس نے منگو کو
چھڑی کے اشارے سے تانگے سے نیچے اترنے کے لئے کہا۔ جواباً اس نے انگریز کو
تانگے سے اتر کر بے تہاشا پیٹنا شروع کردیا۔
متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی
اور جب دیکھا کہ اس پر دیوانوں کی سی حالت طاری ہے تو اس نے زور زور سے
چلانا شروع کردیا۔ اسی چیخ و پکار نے منگو کا کام اور تیز کردیا جو گورے
کو جی بھر کر پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جارہا تھا:
پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں اب ہمارا را ج ہے بچہ۔
لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ قانون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس بات کا
احساس اسے تب ہوا جب اسے ایک گورے کو پیٹنے کے جرم میں حوالات میں بندکر
دیا گیا۔ راستے اور تھانے کے اندر وہ نیا قانون پکارتا رہا مگر کسی ایک نہ سنی۔