Mohsin-ul-Malik محسن الملک
2nd Year Urdu (اردو)
محسن الملکMohsin-ul-Malik
حوالہ
پیشِ نظر اقتباس محسن الملک سے لیا گیا ہے جو مولوی عبدالحق کی کتاب چند ہم عصر سے ماخوذ ہے۔
تعارفِ مصنف
بابائے اردو مولوی عبدالحق کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ نے عملی،
انتظامی، تقریری اور تحریری ہر طرح سے اردو زبان کی خدمت کی ۔ یہی وجہ ہے
کہ آپ کی تحریروں میں خلوص کے ساتھ ساتھ ادبی تاثیر، شگفتگی، روانی اور
حکمت و دانائی کا عکس نظر آتا ہے۔ جس میں انفرادیت ہر لمحہ برقرار رہتی ہے۔
آپ کے بارے میں کہا گیا:
دورِ جدید میں اردو کی تاریخ اور تنقید کا جو مزاج تعلیم یافتہ طبقے
میں پیدا ہوا ہے اور اردو کی جو علمی سطح پیدا ہوئی ہے اس میں مولوی صاحب
کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ (ڈاکٹر ابوالیث صدیقی)
تعارفِ سبق
مصنف نے اس سبق میں نواب محسن الملک کی شخصیت کے مختلف پہلووں کو اجاگر
کیا ہے۔ آپ کی ان خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے جن کو مشعلِ راہ بنا کر انسان
کامیابی و کامرانی کے سفر پر گامزن ہوسکتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے انتہائی
دلنشین انداز میں تدبرودانائی، ہردلعزیزی، حسنِ گفتار اور حسن شناسی جیسے
جواہر پر روشنی ڈالی ہے اور نواب محسن الملک کی بلند پایہ کردار کی خاکہ
کشی کی ہے۔
اقتباس ۱
آدمی کوپہنچاننے میں انہیں خاص ملکہ تھا۔ تھوڑی سی ملاقات اور بات چیت کے
بعد آدمی کو پوری طرح بھانپ لیتے تھے۔ ان سے ملنے والے برے اور بھلے ہر
قسم کے آدمی تھے۔ دنیا نیکوں ہی کے لئے نہیں، اس میں بروں کا بھی حصہ ہے
اور شائد دنیا کی بہت کچھ رونق انہیں کے دم سے ہے۔ وہ دونوں سے کام لیتے
تھے۔
تشریح
پیش نظر اقتباس میں مصنف محسن الملک کی جیسی خوبی کو تذکرہ کررہا ہے وہ
ہے مردم شناسی۔ نواب صاحب میں یہ بات کانی حد تکتھی کہ وہ آدمی کو پہلی
ملاقات ہی میں پہچان لیتے تھے۔ وہ بات چیت اور مختلف حرکات و سکنات سے اپنے
سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی نیت اور مقاصد کا اندازہ لگالیتے ۔ ان کے لئے اس
بات کا فیصلہ کرنا بالکل مشکل نہ ہوتا کہ ان کا ملاقاتی اپنے فائدے کے
لئے موجود ہے یہ پھر کسی اجتمائی فائدے کی خواہش ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ
چونکہ ان سے ملنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لئے ان میں برے اور
بھلے ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ یہاں پر مصنف اپنا فلسفہ پیس کرتا ہے کہ اس
دنیا میں اچھے اور برے ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اور اس دنیا کی رونقیں
اور دلچسپیاں زیادہ تر ان برے لوگوں کی وجہ سے ہی زندہ ہیں۔ اگر برے
افراد چوری نہ کریں تو اہلِ حق کس پر مقدمہ کریں گے، اگر کوئی برامقصد
سامنے نہ لایا جائے تو اس کے سدباب کے لئے تدابیر کیسے آئیں گیں۔ غرض یہ
کہ برے لوگوں کا اچھے لوگوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں بھی بڑا ہاتھ ہوتا
ہے اور اس دنیا کی دلچسپیاں اور رونقیں بھی انہیں کے دم سے ہیں۔ پھر مصنف
اپنی بات مکمل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ نواب محسن الملک اپنا کام نکلوانا
خوب اچھی طرح جانتے تھے اور کسی بھی موقع کو ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ اگر
ان کا کوئی کام کسی برے فرد سے پورا ہوتا نظر آتا تو اس پر عمل کرنے میں
دیر نہ کرتے اوراچھے افراد تو ان کے ساتھ تھے وہ بھی ان کے کام میں ہاتھ
بٹاتے
اقتباس ۲
ان میں پارس پتھر کی خاصیت تھی۔ کوئی ہو، کہیں کا ہو، ان سے چھوا نہیں اور کندن کا ہوا نہیں۔
تشریح
زیرِ نظر سطور میں بابائے اردو نواب محسن الملک کی شخصیت کی اثر پذیری کا
ذکر کررہے ہیں۔ بقول انکے جسطرح پارس پتھر مسِ خام کو کندن بنادیتا ہے
اسی طرح جوبھی نواب محسن الملک کی شخصیت کے اثر سے فیضیاب ہوا۔ اس نے انکی
کرداری خصوصیات کو جذب کرلیا اور اسکی شخصیات بدل کر رہ گئی یہ ایک ایسا
معجزہ ہے جوسوائے اولیاء اور پیغمبروں کے عام لوگوں کو کم ہی نصیب ہوتا ہے۔
نواب محسن الملک میں ایک یہ خوبی یہ بھی تھی کہ کیوں کہ ان کے ملنے والوں
میں ادنٰی و اعلٰی، شریف و خراب سب ہی قسم کے لوگ شامل تھے چنانچہ برے
لوگ انکی شخصیت کے زیراثر کارآمد انسان کا روپ دھار لیتے تھے
اقتباس ۳=
وجاہت، ذہانت ، خوش بیانی اور فیّاضی ان کی ایسی عام اور ممتاز صفات تھیں
کہ ایک راہ چلتا بھی چندمنٹ کی بات چیت میں معلوم کر لیتا تھا۔ خطاب یا
نام اٹکل سے رکھ دیے جاتے ہیں۔ مسمیٰ کی خصوصیات کا ان میں مطلق لحاظ نہیں
ہوتا۔ نام رکھتے وقت تو ممکن ہی نہیں، عطائے خطاب کے وقت بھی اس کا خیال
نہیں کیا جاتا۔
تشریح
پیشِ نظر اقتباس سے مصنف اپنے سبق کا آغاز کرتا ہے اور نہایت خوبصورتی سے
محسن الملک کی اسم بامسمی شخصیت کے نایا ب پہلو اجاگر کرتا ہے۔ مصنف کہتا
ہے کہ نواب صاحب کئی خصوصیات کے مالک تھے جن میں سب سے پہلا ذکرو جاہت کا
ہے۔ بقول مصنف محسن الملک ایک وجیہہ شخص تھے جس سے ملنے والا بہت جلد
مرعوب ہوجاتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص ان سے ذرا دیر کو بات چیت کرے
تو ان کی خوش بیانی اور ذہانت و فیاضی کا قائل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد مصنف
اپنا فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ انسان کا نام رکھتے وقت اس کی خصوصیات اور
خوبیوں کو نہیں دیکھا جاتا کیونکہ اس وقت ایسی خصوصیات سامنے ہی نہیں آتی۔
لہذا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نام کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور اس شخص میں
خوبیاں اور خامیاں دوسری قسم کی ہوتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ نواب محسن الملک
کے ساتھ سلسلہ کچھ اور نکلا اور ان کا خطاب ان کی شخصیت کے لئے بالکل موزوں
نکلا۔ وہ تمام لوگوں کے لئے اپنے دل میں ہمدردانہ جذبات رکھتے تھے اور
ایک ہی ملاقات میں ان کو مرعوب کردیتے۔ اسی لئے لوگ انہیں اپنا محبوب
جانتے اور انہیں محسن الملک کہہ کر پکارتے
___________________________________________________________________________________