2nd year Urdu Khulasa خلاصے
2nd Year Urdu (اردو)
2nd year Urdu Khulasa خلاصے
چور
تعارفِ افسانہ
اشفاق احمد صاحب کا یہ افسانہ چور ان کے مجموعے سفرِ مینا
سے انتخاب ہے۔ زندگی نام ہے آزمائش کا، امتحان کا۔ زندگی کی اس گاڑی کو
چلانے کے لئے اچھی سوچ، اچھی عقل اور اچھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ
تینوں چیزیں میسر ہوں تو وہ ایک کامیاب انسان بنتا ہے لیکن ان کی عدم
موجودگی کی صورت میں انسان غلط روی اختیار کرکے اپنی دین و دنیا دونوں تباہ
کرلیتا ہے اور یہی حقیقیت اشفاق صاحب کے افسانہ کی بنیاد ہے۔
تعارفِ مصنف
اشفاق احمد کے بارے میں لکھتے ہیں:
اشفاق صاحب معاشرے کے سچے اور بے باک ترجمان ہیں۔ ان کا افسانہ ہو یا ڈرامہ وہ اسمیں جذباتِ انسانی کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ (احمد ندیم قاسمی)
مرکزی خیال
اشفاق صاحب کا یہ افسانہ معاشرے پرایک دردناک طنز ہے۔ اور اس کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے:
کوئی انسان ماں کی گود سے بدکردار اور برا بن کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ
یہ معاشرے کی ناہمواریاں ہی ایسے کرداروں کو جنم دیتی ہیں اور پروان
چڑھاتی ہیں۔
خلاصہ
ایک چور رات کے اندھیرے میں ایک غریب خاندان کے گھر میں چوری کی نیت سے
داخل ہوتاہے۔ کمرے میں داخل ہوکر ایک الماری کھولتا ہے جس میں دواوں کی
شیشیاں بھری ہوتی ہیں۔ اسی الماری کے خانے میں سے اسے ایک لفافہ ملتا ہے جس
میں ایک سو ستر روپے اور ایک خط رکھا ہوتا ہے۔ چور لفافہ منہ میں دبا کر
مسروروشادمان نکل جاتا ہے۔ گھر پہنچ کر لفافہ کھولتا ہے اور خط نکال کر
پڑھتا ہے۔
خط میں کسی شکیلہ بیگم نے اپنے بھائی کو اپنے بیمار بیٹے کے علاج کے لئے
رقم نہ دینے پر شکوہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ ادھار وغیرہ لے کر علاج کے
لئے رقم مہیا کرلی گئی ہے اور وگ بیٹے کو بغرضِ علاج پنڈی لیجانے والے
تھیں۔ یہ حقیقیت جان کر چور کو سویا ہوا ضمیر بیدار ہوگیا۔ رات اس نے سخت
اضطراب میں کاٹی اور صبح رقم لوٹانے گھر سے نکلا مگر اسے جائے واردات پر
پولیس والے تفتیس کرتے نظر آئے۔ وہ خوفزدہ ہوکر داتا دربار چلا گیا۔ اسکا
ضمیر اسے چین نہ لینے دیتا تھا۔ اگلے دن وہ پھر شکیلہ بیگم کے گھر کی طرف
گیا۔ اس نے چاہا کہ رجسٹری کا لفافہ پیسوں سمیت اندر اچھا ل دے لیکن ہمت نہ
ہوئی۔
چور رات پھر اپنے ضمیر سے لڑتا را اور بالآخر اس کے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔
صبح کو نہا دھو کر سیدھا شکیلہ بیگم کے گھر پہنچا کنڈی کھٹکھٹا کر انتظار
کرنے لگا کہ جونہی دروازہ کھلے وہ لفافہ اندر پھینک کر روانہ ہوجائے گا۔
دروازہ کھلا لیکن چور کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے یونہی بات بنادی اور وہاں سے
چلا آیا۔
اسکے ضمیر نے پھر اس کی لعنت ملامت شروع کردی اور بالآخر اس کی قوت مدافعت
جواب دے گئی۔ اس نے ایک ٹرانزسٹر ریڈیو چرا کر بیچ دیا اور قصور وقت
گزارنے چلا گیا لیکن یہاں بھی اس کا ضمیر آسودہ نہ ہوسکا۔ ایک ہفتے کے بعد
وہ پھر لاہور آیا اور سیدھا شکیلہ بیگم کے گھر پہنچا۔ جب وہ گلی کے موڑ پر
پہنچا تو اندر سے بچے کا جنازہ باہر نکل رہاتھا۔ بچے کی حالت بہت خراب
تھی۔چور نے آگے بڑھ کر میت کو کندھا دیا۔ بہت سے لوگ باتیں کررہے تھے اور
چور کو برا بھلا کہہ رہے تھے جس نے سفرخرچ کی رقم چرا کہ بچے کی جان لے لی
تھی۔
چور کے ضمیر نے اس کی گردن پر زور سے دھپا مارا۔ وہ سڑک پر گر گیا۔ لوگوں
نے پکڑ کر اسے اٹھایا۔ جنازہ میانی صاحب پہنچ گیا۔ تدفین سے فارغ ہوکر لوگ
گھروں کو لوٹ گئے۔ چور نے پھولوں کی ایک ٹوکری خریدی اور سقے کو پیسے دے
کر ساری قبر پر چھڑکاو کوایا اور سارے پھول قبر پر ڈال دیے اور بہت دیر
وہاں بیٹھا رہا۔ اس نیک کام کی بدولت اس کے ضمیر کا بوجھ بالکل ختم ہوگیا۔
_________________________________________________________________________________
مجسمہ
تعارف
یہ خوبصورت کہانی مجسمہ غلام عباس کے قلم کی وہ تخلیق ہے جس سے ان
کی فنی زندگی کا آغاز ہوا۔ غلام عباس جدید اردو افسانے کے منفرد اہلِ قلم
ہیں۔ آپ حقیقت و سچائی کا کلیہ مشاہدہ کرکے تجرباتِ زندگانی کو صفحہ
قرطاس پر منتقل کرتے ہیں۔ آپ کا طرزِ نگارش سادہ، سلیس اور دل کش ہوتا ہے۔
غلام عباس کے ساتھ افسانے کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ وہ اس بزم کے آخری چراغ تھے۔ (شوکت صدیقی)
خلاصہ
اس کہانی کا مرکزی کردار بادشاہ ہے جو اپنی حسین وجمیل ملکہ سے بے پناہ
محبت کرتا ہے۔ ایک شوہر کی حیثیت سے وہ ملکہ کو اپنی جذباتی زندگی کی تسکین
کا وسیلہ سمجھتا ہے اور گھر میں بے ساختگی کی فضا چاہتا ہے۔ ان تمام
احساسات کو سمجھنے کے باوجود ملکہ خدمت و اطاعت کا پیکر بن کر رہتی ہے اور
انانیت اور خودداری کے خول سے باہر نہیں آتی۔ ملکہ کا یہ مصنوعی رویہ
بادشاہ کو تکلیف پہنچاتا جس کی بدولت وہ ملکہ سے، اپنی سلطنت سے اور پھر
خود سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
عمائدین سلطنت بادشاہ کا غم بانٹنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس
کے باوجود بادشاہ کا نفسیاتی خلاء بڑھتا چلا جاتا ہے۔ البتہ اس کے بے کیف
دل کو مصوری اور سنگ تراشی میں ہی اپنے احساسات کی تسکین ملتی ہے۔ اور
پھر ایک دن جب ایک بوڑھا سنگ تراش بادشاہ کی خدمت میں ایک چھوٹا مگر
انتہائی خوبصورت مجسمہ پیش کرتا ہے تو بادشاہ خوشی سے نہال ہوجاتا ہے اور
بوڑھے صناع کو بے بہا انعام و کرام سے نوازتا ہے۔
اس احساسات سے پر مجسمے کو بادشاہ اپنی خوابگاہ میں سجالیتا ہے۔ وہ پہروں
اسے دیکھتا اور جذبات کی دل فریب دنیا میں کھوجاتا ۔ مجسمے میں بادشاہ کی
یہ محویت دیکھ کر ملکہ کے مصنوعی خول میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس
کے دل میں رشک، حسد بلکہ رقابت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ان جذبات کی
تسکین کے لئے ملکہ مختلف طریقے اختیار کرتی تاکہ وہ بادشاہ کی توجہ حاصل
کرسکے۔ بادشاہ کو یہ مجسمہ پہلے سے کہیں زیادہ عزیز ہوجاتاہے کیونکہ اسی
کی وجہ سے ملکہ کے پتھر دل میں جذبات کی دنیا آباد ہونے لگتی ہے۔
مجسمے میں بادشاہ کی دلچسپی اور ملکہ کی رقابت دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں
تک کہ ملکہ اس مجسمے کو باقائدہ نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے۔ پہلے اس
کے منہ پر سیاہی کے دھبے لگاتی ہے اور پھر اسکے اعضاءتوڑ دیتی ہے۔ بادشاہ
بظاہر بے خبر تمام لونڈی غلاموں کو سزا بھی دیتا ہے لیکن سمجھ رہا ہوتا ہے
کہ ملکہ کے دل پر کیا گزرہی ہے۔
پھر ایک دن جب وہ سوکر اٹھتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کے منہ سے چینخ نکل جاتی
ہے کہ مجسمے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب بادشاہ کامیاب
ہوگیا۔ ملکہ کا انا کا بت بھی پاش پاش ہوگیا اور ملکہ بادشاہ کے قدموں میں
تمام تر محسوسات کے ساتھ موجود تھی۔
بادشاہ کی خوابگاہ میں رکھے مجسمے اور ملکہ کی انا کے مجسمے کے ٹوٹتے ہی
عورت کو وہ فطری روپ ظہور میں آتا ہے جس کے تحت وہ ہزار انانیت کے باوجود
اپنے شوہر کی توجہ کہیں اور برداشت نہیں کرپاتی۔
بقول شاعر
بت شکنی کا مرتبہ یوں تو بلند ہے مگر
اپنے ہی خاص لطف ہے صنعتِ آذری کے بھی
_________________________________________________________________
ہمسفر
تعارف
ہم سفر جدید افسانہ نگار انتظار حسین کے قلم کی تخلیق ہے۔
انتظار حسین ایک علامتی افسانہ نگار ہیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد
تہذیبی روایات کو برقرار رکھا اور اردو افسانے کو جدت کی راہ پر گامزن کیا۔
ان کے افسانوں کا موضوع انسان ہے اور انسان کے اندر پائی جانے والی مختلف
جہتوں کو اجاگر کرنا ان کا مقصد۔ ان کے یہاں بیانیہ، تمثیلی اور علامتی
ہر قسم کے افسانے ملتے ہیں۔
انتظار حسین غالباً اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے انسانوں کے اخلاقی اور روحانی زوال کی کہانی مختلف زاویوں سے لکھی ہے۔ (پروفیسر سجاد رضوی)
خلاصہ
یہ ایک ایسی کہانی ہے جو انسان میں پائی جانے والی ارادے کی کمزوری اور
غیر مستقل مزاجی کی عکاسی کرتی ہے۔ افسانہ نگار نے علامتی طور پر ایک شخص
کا سفر بیان کیا ہے جو غلط بس میں سوار ہوجاتا ہے۔ دورانِ سفر اس کے ذہن
میں مختلف خیالات کا جوار بھاٹا اٹھتا رہتا ہے اور وہ کسی ایک خیال کو بھی
عملی جامہ نہیں پہنا پاتا۔ اسے یہ احساس کچھ دیر کے بعد ہوجاتا ہے کہ وہ
غلط بس میں سوار ہے لیکن بس کی رفتار اور رش کی وجہ سے وہ کوئی قدم نہیں
اٹھاپاتا۔ بس ماڈل ٹاون کی تھی۔ یہ اسے اس وقت پتہ چلتا ہے جب ایک نوعمر
لڑکا بدحواسی کے عالم میں پوچھتا ہے کہ کیا یہ بس ماڈل ٹاون جائے گی؟
پہلے تو وہ اگلے اسٹاپ پر اترنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ لیکن پھر سوچتا ہے کہ
وہاں سے دوسری بس باآسانی نہیں مل سکے گی۔ جیسے جیسے اسٹاپ گزرتے جاتے
ہیں اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ منزل سے دور ہوتا جارہا ہے۔ بالآخر وہ اپنے
آپ کو مجبور پاکر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ آخری اسٹاپ تک جائے گا اور پھر کوئی
فیصلہ کرے گا۔
ماڈل ٹاون کے ذکر سے اسے اپنا دوست یاد آیا جو پہلے ماڈل ٹاون میں رہائش
پذیر تھا اور ان دنوں امریکہ جا چکا تھا۔ پھر اسے امریکہ جانے والے دیگر
دوست یاد آئے اور پاکستان میں رہ جانے پر افسوس ہوا۔
کنڈکٹر کے تاخیر سے آنے کی وجہ سے اس کے اندر ضمیر اور نفس کی جنگ شروع
ہوجاتی ہے۔ بددیانتی اسے ٹکٹ نہ لینے پر اکساتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں
کرپاتا۔ کچھ دیر بعد جب وہ کنڈکٹر کو کرایہ دے دیتا ہے تو سوار ہونے کی جگہ
نہیں بتاتا۔ چنانچہ جب کنڈکٹر کرایہ کم لیتا ہے تو ایک مرتبہ پھر اس کا
ضمیر ملامت کرتا ہے اور آخر کار
بقول مصنف:
اس نے آس پاس کے مسافروں پر چور نظر ڈالی۔ سونے والے ہمسفر کو دیکھ کر اطمینان کا ایک سانس لیا اور پیسے اور ٹکٹ جیب میں رکھ لئے۔
اس کا سفر جاری رہتا ہے۔ مختلف مقامات پر سے سوار ہونے والون کی بے قراری
اور اترنے والوں کی بدحواسی، سیٹوں پر بیٹھنے کے لئے مسافرون کی کھنچا
تانی اور کسی مسافر کی زبانی کہیں کی کہانی سب سنتا اور دیکھتا رہتا ہے۔
پہلے تو اس نے سوچا تھا کہ وہ غلط بس میں سوار ہوگیا ہے لیکن اب اسے احساس
ہوتا ہے کہ صحیح اور غلط تو مسافر ہو تے ہیں۔ بس تو اپنے ہی راستے پر
چلتی ہے۔ پھر اس کے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اس کا کوئی ہمسفر نہیں
ہے کیونکہ دیگر افراد تو اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں جبکہ وہ تنہا ہی غلط
راستے پر چل رہا ہے۔
منتشر افکار کے اس سفر کے ساتھ ساتھ بس کا سفر بھی جاری رہتا ہے۔ یہاں تک
تمام مسافر ایک ایک کرکے اتر جاتے ہیں۔ بس میں صرف وہ یا بھر اس کا مدہوش
ہم سفر باقی رہ جاتاہے جو اس کے دکھتے کاندھے پر سررکھے سورہا تھا۔ یہ
مختصر سا سفر حیاتِ انسانی سے بھرپور مماثلت رکھتا ہے۔ جس کا ذکر افسانہ
نگار نے بھی کیا ہے۔ انسانی زندگی کا سفر بھی مختلف احساسات و جذبات اور
فیصلوں کی کشمکش کا نام ہے جس کو طے کرنے کے لئے صحیح وقت پر صحےح قدم کی
ضرورت ہے۔
بقول شاعر
زندگی کیا ہے کسی سہمی ہوئی آنکھ سے پوچھ
صرف ایک خوابِ پریشان، جو دیکھا نہ جائے
__________________________________________________________________________________
بدلہ
تعارف
بدلہ ایک سندھی کہانی کا اردو ترجمہ ہے جس کے خالق غلام ربانی آگرو ہیں۔
خلاصہ
اس کہانی میں ایک انتقامی جذبہ رکھنے والے شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے۔
قصے کا ہیرو بظاہر ایک تانگے والا گلاب ہے جو یومیہ معاوضہ کسی تانگے اور
گھوڑے کے مالک کو دے کر اسے کرائے پر چلایا کرتا ہے۔ مگر اصل اہمیت اس قصے
میں گلاب کے حریف خیرو تانگے والے کی ہے جو گلاب سے پہلے یہی گھوڑا تانگہ
چلایا کرتا تھا مگر اس کی غلط اور گھٹیا عادتوں سے تنگ آکر گھوڑے کے مالک
نے اس سے معاملہ ختم کردیا اور اسے گلاب کو دے دیا۔ جس نے گھوڑے کی دیکھ
بھال اور خدمت اپنی اولاد کی طرح کی اور اب یہ گھوڑا اپنی عمدہ اور تیز چال
اور شریفانہ عادتوں کے باعث تانگے والوں کی برادری میں بہت معروف اور
پسندیدہ بن گیا۔ یہ بات خیرو کے لئے سخت غصے اور رنج کا باعث بنی اور دل ہی
دل میں وہ گلاب سے انتقام لینے کا عزم پالنے لگا۔
اس کا موقع بھی اسے جلد ہی مل گیا۔ گلاب ایک بار سخت بیمار ہوگیا جس کے
باعث کئی ماہ تک بستر پر پڑا رہا۔ خیرو نے گلاب کی بیماری سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے گھوڑے کے مالک کے کان بھرے کہ اتنے دنوں تک بے کار کھڑے کھڑے گھوڑا
کسی کام کا نہ رہے گا۔ چنانچہ مالک نے یہ گھوڑا پھر خیرو کو دیدیا۔ خیرو
اسی کا منتظر تھا۔ اس نے گلاب سے اپنی دشمنی اس بے زبان گھوڑے پر نکالی،
اسے بری طرح مارا پیٹا یہاں تک کہ اس کی ران میں ایک کیل بھی گھونپ دی، جو
اس کے لئے مستقل اذیت بن گئی۔ اس کے علاوہ بھی وہ اسے مارتا پیٹتا رہتا۔
اسے زیادہ تر بھوکا رکھاتا اور کھانے کو بھی نہایت گھٹیا قسم کا چارہ
دیتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے افیم اور بھنگ بھی پلائی۔ غرض ہر کوشش کر
ڈالی کہ گھوڑا ناکارہ ہو جائے اور بالاخر گھوڑے کے مالک کو اطلاع دے دی کہ
اب یہ گھوڑا کسی کام کا نہیں رہا یہ سن کر مالک اسے بیچنے پر آمادہ ہوگیا
جب گلاب کو اس کا علم ہوا تو اس نے مالک سے گھوڑا اور تانگہ خود خرید لیا۔
جس سے نہ صرف گلاب کے گھر والوں کو بے حد خوشی ہوئی بلکہ گھوڑا بھی بہت
خوش ہوگیا۔
کہانی کا آخری حصہ سب سے موثر ہے۔ گلاب کی کم سن بچی زلیخا جو اس گھوڑے سے
بہت مانوس تھی اور خیرو کے مظالم جو اس نے گھوڑے پر اپنی تحویل میں ڈھائے
تھے، سن کرسخت مغموم اور خیرو سے متنفر ہوگئی، ایک دن خیرو کو اپنے دوسرے
دبلے پتلے گھوڑے پر بے تحاشا چابک چلاتے دیکھ کر ضبط نہ کرسکی اور پورے
جوش و غصے سے خیرو کے تانگے کے سامنے آکر خیرو کو ڈانٹنے لگی کہ بے زبان
جانوروں پر اس طرح ظلم نہ ڈھایا کرے اور یہ منظر دیکھ کر خود خیرو بھی
متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اسے اپنے ظالمانہ کردار پر پچھتاوا محسوس
ہونے لگا۔
_________________________________________________________________________________
آرام و سکون
تعارف
یہ ڈرامہ جسے یک منظری پلے (One Act Play) کہا جاتا ہے، سید امتیاز علی تاج کا
ایک طنزیہ ڈرامہ ہے۔تاج نے اور بھی بہت طویل اور مختصر ڈرامے لکھے لیکن
ان کی سب سے مشہور تصنیف ”چچا چھکن“نامی مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ ہے، جس
میں ایک کردار چچا چھکن کی پر لطف حماقتیں دکھائی گئیں ہیں۔
خلاصہ
اس ڈرامے کا خلاصہ فقط اتنا ہے کہ ایک گھر کا مالک جسے ڈرامے میں میاں
دکھایا گیا ہے، اپنے دفتر میں بہت زیادہ کام کرتے رہنے کے باعث تھک کر
بیمار ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اسے پوری طرح آرام، سکون اور
تنہائی کی ضرورت ہے لیکن میاں کی سادہ لوح اور کسی قدر غصہ ناک بیوی اپنی
دانست میں اس کے لئے جتنے بھی جتن کرتی ہے کہ وہ آرام و سکون پائے اتنا ہی
وہ بے آرام اور بے سکون ہوتا جاتا ہے اور آخر کار تنگ آکر وہ پھر اسی دفتر
کو جانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے جہاں کی محنت، ہنگامہ آرائی اورشور شرابے
سے بچنے کے لئے وہ گھر آکر لیٹا تھا، کیونکہ گھر پراس کی بیوی کی حماقتوں
کی بدولت دفتر سے بھی زیادہ بے آرامی اور شوروغل وغیرہ پیدا ہوگیا تھا اور
میاں کو اپنے گھر سے زیادہ دفتر میں آرام و سکون ملنے کی توقع تھی۔
__________________________________________________________________________________
سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت
تعارف
اس مضمون کے مصنف سید سلیمان ندوی ہیں جو اپنے وقت میں برصغیر کے
زبردست عالم دین بھی تھے۔ ایک اچھے ادیب بھی اور مشہور اردو ادیب علامہ
شبلی نعمانی کے سب سے عزیز اور ہونہار شاگرد بھی، جنہیں شبلی نے اپنی زندگی
میں ہی اپنا جانشین قرار دے دیا تھا اور شبلی کی وفات کے بعد ان کے علمی،
ادبی تحقیقی کاموں کو آگے بڑھانے اور جاری رکھنے کا کام بھی انہی کی
نگرانی میں ہوتا رہا اور آج تک جاری ہے۔
خلاصہ
اس مضمون کا خلاصہ فقط یہ ہے کہ دنیا کی پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک
ہی ہستی محترم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ہی جس کی زندگی دنیا کے ہر انسان کے
لئے، خواہ وہ کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو اور کسی زمانے کا بھی ہو، مثال
اور نمونے کے لائق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی ایسا نہیں
جس کی زندگی میں انسانی کمالات اس طرح جمع ہوگ ئے ہوں۔ مختلف ملکوں اور
علاقوں کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی ایسا نہین جس کی زندگی
میں انسانی کمالات اس طرح جمع ہوگئے ہوں۔ مختلف ملکوں اور علاقوں کے لوگ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
مبارک صورت اور اخلاق دیکھ کر ایمان لے آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ
استاد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسے میں دنیا کے ہرشخص کے لئے
داخلہ کھلا ہے۔ اللہ تعالی نے بھی اعلان فرمادیا ہے کہ اگر تم میری محبت کا
دعوی رکھتے ہوتو میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔
_________________________________________________________________________________
nice in one website :)
ReplyDeleteSend more notes plz
ReplyDeletegood website
ReplyDeleteTo much helpful....
ReplyDeleteakheeeeeerrrr ki wevsitee h
ReplyDeleteworthhh itt at alllllllllll
ReplyDelete